• KHI: Clear 19.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 13°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C
  • KHI: Clear 19.5°C
  • LHR: Partly Cloudy 13°C
  • ISB: Partly Cloudy 13.8°C

اقتدار میں ہوتے ہوئے گمشدگیاں ناقابل برداشت، وزیر داخلہ

شائع January 11, 2017

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سینیٹ کو سلمان حیدر سمیت چار سماجی کارکنان کے لاپتہ ہونے کے معاملے اور ان کی بازیابی کے لیے اقدامات سے آگاہ کیا۔

سینیٹ اراکین کو چوہدری نثار علی خان کا بتانا تھا کہ لوگوں کو گمشدہ کرنا حکومت کا کام نہیں اور نہ ہی اقتدار میں ہوتے ہوئے ہم اس قسم کی گمشدگیوں کو برداشت کریں گے

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ لوگوں کے 'غائب' ہونے کا رجحان 2002 سے 2008 کے عرصے میں دیکھا گیا تھا اگر یہ حکومت کی پالیسی نہیں تو حکومت کو لازماً کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیئے تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے دور کا مبہم حوالہ دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ میں اپنے ساتھ کام کرنے والے ان افراد سے معذرت خواہ ہوں جو اس نظام کا حصہ تھے کیونکہ اس وقت پالیسیاں کہیں اور بنتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب پالیسیاں یہاں یعنی پارلیمنٹ ہاؤس میں بنتی ہیں۔

چوہدری نثار کا ایوانِ بالا کو بتانا تھا کہ گمشدہ ہونے والے چاروں افراد جن میں سے ایک کو اسلام آباد جبکہ تین کو لاہور سے اغواء کیا گیا۔

مزید پڑھیں: ایک اور سماجی کارکن اسلام آباد سے لاپتہ

ان کا مزید کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہی سیف سٹی سی سی ٹی وی نیٹورک صرف اسلام آباد تک محدود ہے جس کی وجہ سے اغواکار جب ایئرپورٹ روڈ کے ذریعے انہیں لے کر راولپنڈی کی جانب روانگی کے بعد سلمان حیدر کی تلاش کو جاری رکھنا مشکل ہوگیا۔

چوہدری نثار کا مزید بتانا تھا کہ وہ خفیہ ایجنسیوں کے سینئر حکام سے رابطے میں ہیں اور گذشتہ 48 گھنٹوں سے وہ سلمان حیدر کی گمشدگی میں ملوث عناصر کو بےنقاب کرنے اور سلمان حیدر کو بحفاظت ان کے اہل خانہ سے ملوانے کی کوشش میں ڈیوٹی سے زائد کام میں مصروف ہیں۔

ان کے مطابق حکومت اس مکروہ جرم میں ملوث افراد کا پیچھا نہیں چھوڑے گی تاہم پہلا مقصد سلمان حیدر کی بازیابی ہے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ تفتیش درست سمت میں آگے بڑھ رہی ہے اور اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

لاہور سے ہونے والی اغواء کے واقعات پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تینوں واقعات میں کوئی واضح تعلق نہیں ہے، ایک واقعہ 4 جنوری کو پیش آیا جبکہ باقی دو اغوا کی وارداتیں 6 جنوری کو سامنے آئیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تین مغویوں میں سے دو کو ایک ساتھ اغوا کیا گیا تھا اور ان گرفتاریوں میں سے ایک میں ہونے والی عجیب بات یہ تھی اغوا کیے جانے کے بعد اس شخص کی جانب سے اہل خانہ کو میسج کرکے کہا گیا کہ چند دوست اس کا لیپ ٹاپ لینے آئیں گے جس کے بعد ڈرائیور کے بعد دو افراد نے جو سادہ لباس اور ٹوپی پہنے ہوئے تھے ان کے دروازے پر آئے اور اہل خانہ نے بھی بغیر تصدیق کے لیپ ٹاپ ان افراد کے حوالے کردیا۔

چوہدری نثار کے مطابق پنجاب حکومت ان کیسز پر ترجیحی بنیادوں پر کام کررہی ہے اور ہم ایوان کو یقین دلاتے ہیں کہ تفتیش کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا تاہم ہماری پہلی ترجیح مغویوں کی باحفاظت گھروں کو واپسی ہے۔

دوسری جانب سلمان حیدر کی بازیابی کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی گئی، ٹیم کی سربراہی سپرانٹینڈنٹ پولیس (ایس پی) محمد الیاس کریں گے جبکہ ٹیم میں اسی پی دیہی مصطفیٰ تنویر اور ڈپٹی ایس پی بھی شامل ہیں۔

ڈان کو حکام نے بتایا کہ سیف سٹی پروجیکٹ کیمروں کی مدد سے تحقیقاتی ٹیم فوٹیج کا معائنہ کررہی ہے اور اب تک تفتیش کاروں کو اس بات کا علم ہوسکا ہے کہ ایک گاڑی سلمان حیدر کی گاڑی کا پیچھا کررہی تھی۔

حکام کا مزید بتانا تھا کہ سلمان حیدر کے فون کالز کا ڈیٹا بھی حاصل کیا جاچکا ہے تاہم کوئی خاص معلومات سامنے نہ آسکی جو شواہد موجود ہیں پولیس ان پر کام کررہی ہے۔

سول سوسائٹی کا احتجاج

منگل کے روز تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نیشنل پریس کلب پہنچے اور تمام مغویوں کی گمشدگی پر احتجاج کیا۔

مجمع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ماضی میں لوگ بلوچستان اور فاٹا سے 'غائب' ہوا کرتے تھے مگر اب اسلام آباد سے بھی لوگ لاپےہ ہورہے ہیں جو سول سوسائٹی کے کارکنوں اور تمام سیاستدانوں کے لیے اشارہ ہے کہ وہ خبردار اور محتاط رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: فرقہ وارانہ اوردہشت گردتنظیموں کاموازنہ نہیں، وزیر داخلہ

ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ چیئرمین واقعات کا نوٹس لے چکے ہیں اور ایوان بالا کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے 16 جنوری کو اس حوالے سے اجلاس طلب کرلیا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا تھا کہ گمشدہ افراد ی تلاش کی کوششیں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر کا کہنا تھا کہ احتجاج کو صرف سلمان حیدر اور دیگر افراد کی بازیابی تک نہیں بلکہ اس قت تک جاری رہنا چاہیئے جب تک لوگوں کا اس طرح لاپتہ ہونے کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا۔

ان کا کہنا تھا اس میں ملوث گروہوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جانا چاہیئے چاہے پھر وہ ریاستی اداکار ہوں یا غیر ریاستی۔

ماہرِ تعلیم پرویز ہود بھائی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی کیمروں اور دیگر آلات پر کئی ارب روپے خرچ ہونے کے بعد گمشدہ افراد کی تلاش کوئی مشکل کام نہیں ہونا چاہیئے تھا۔

سماجی کارکن فرزانہ باری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کبھی ان افراد کے خلاف ایکشن نہیں لیا جو ابوبکرالبغدادی کے حق میں باتیں کرتے تھے لیکن لوگوں کے حقوق کے لیے بات کرنے والوں کو روکنے کے اقدامات کیے جاتے رہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا ہم ایسے معاشرے میں رہنا چاہتے ہیں جہاں لوگوں کو ایک ٹوئیٹ یا فیس بک پوسٹ کے بعد خوفزدہ ہوجائیں۔

بین الاقوامی مذمت

چاروں افراد کی گمشدگی پر بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی گئی۔

ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی ان کو لاپتہ کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے بازیابی پر زور دیا۔


یہ رپورٹ ڈان اخبار میں 11 جنوری 2017 کو شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025