پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرم قاسم شاہ کی سزا پر عمل درآمد پر حکم امتناع جاری کردیا۔

جمعرات کو پشاور ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے فوجی عدالت کی جانب سے سنائے جانے والے فیصلے کو معطل کرنے کا حکم جاری کیا۔

قاسم شاہ کو مانسہرہ میں ایک این جی او پر ہونے والے حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی جس میں 5 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مجرم قاسم شاہ کے اہل خانہ نے اس فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست پشاور ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔

اس سے قبل 29 اگست 2016 کو بھی پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ایک ملزم فضل ربی کی سزا معطل کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: فوجی عدالت کا سزائے موت کا فیصلہ معطل

سیکیورٹی فورسز پر حملوں اور کالعدم تنظیم سے روابط پر فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ملزم فضل ربی کے اہل خانہ نے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

یاد رہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے 16 دسمبر 2016 کو 13 خطرناک دہشت گردوں کی سزائے موت کی توثیق کی تھی جن میں قاسم شاہ کی سزائے موت بھی شامل تھی۔

اس وقت پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا تھا کہ سزائے موت پانے والوں میں راولپنڈی کی پریڈ لین مسجد، باچا خان یونیورسٹی، میریٹ ہوٹل اسلام آباد اور مانسہرہ میں این جی او کے دفتر پر حملے کے ملزمان شامل ہیں۔

سید قاسم شاہ ولد سید امین شاہ کے حوالے سے آئی ایس پی آر نے تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مجرم کالعدم تنظیم کا رکن تھا، جو ورلڈ وژن این جی او پر حملے میں ملوث تھا، اس حملے کے نتیجے میں این جی او کے 6 ملازمین جاں بحق ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: سیاسی و عسکری قیادت کا فوجی عدالتوں میں توسیع پر اتفاق

آئی ایس پی آر نے مزید بتایا تھا کہ مجرم قاسم شاہ کے قبضے سے آتشیں اسلحہ بھی برآمد ہوا تھا اور مجرم نے اپنے جرائم کا اعتراف مجسٹریٹ اور ٹرائل کورٹ کے سامنے کیا جس کے بعد اسے سزائے موت سنائی گئی۔

واضح رہے کہ 21ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرمان کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی کو آرمی چیف کی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

فوجی عدالتوں کو دیئے گئے یہ خصوصی اختیارات رواں ماہ 7 جنوری کو ختم ہوچکے ہیں جس کے بعد ملٹری کورٹس نے اپنا کام بند کردیا ہے۔

جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے کر فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی،جب کہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔

اب یہ خبریں سامنے آرہی ہیں کہ فوجی عدالتوں کو حاصل اختیارات میں توسیع کے لیے حکومت نے غور شروع کردیا ہے۔


تبصرے (0) بند ہیں