ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ’عالمی خواتین مارچ‘

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2017
ناروے کے شہر اوسلو میں بھی ویمن مارچ کا انعقاد کیا گیا — فوٹو / رائٹرز
ناروے کے شہر اوسلو میں بھی ویمن مارچ کا انعقاد کیا گیا — فوٹو / رائٹرز

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد امریکا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں خواتین نے ٹرمپ کے خلاف احتجاجی مارچ کیا۔

لندن، پیرس اور دنیا کے دیگر بڑے شہروں میں لاکھوں خواتین ’ڈمپ ٹرمپ‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکلیں اور انہوں نے امریکی خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جو پہلے ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

اس مارچ میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ بچے، جوان اور بوڑھے مردوں کی بھی بڑی تعداد موجود تھی جو ٹرمپ کے خواتین مخالف خیالات کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے بھارتی نژاد خاتون کو اقوام متحدہ کی سفیر نامزد کردیا

لندن

وسطی لندن میں مرد و خواتین ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں — فوٹو / رائٹرز
وسطی لندن میں مرد و خواتین ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف احتجاج میں شریک ہیں — فوٹو / رائٹرز

لندن کے ٹریفلگر اسکوائر میں ہزاروں خواتین جمع ہوئیں اور انہوں نے امریکی خواتین کی آواز سے آواز ملانے کی کوشش کی۔

مظاہرے میں خواتین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی متعصبانہ پالیسیوں کی مذمت کی گئی تھی۔

34 سالہ ہنا برائنٹ کہتی ہیں کہ وہ یہاں امریکی خواتین کا ساتھ دینے کے لیے آئیں ہیں اور وہ اپنی چار سالہ بیٹی کو بھی لائی ہیں۔

مزید پڑھیں: امریکا: مسلم خاتون ڈونلڈ ٹرمپ کے جلسے سے باہر

منتظمین کا کہنا ہے کہ لندن میں تقریباً ایک لاکھ مظاہرین سڑکوں پر نکلے تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

پیرس

پیرس میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے ڈمپ ٹرمپ ریلی میں شرکت کی — فوٹو / رائٹرز
پیرس میں بھی بڑی تعداد میں خواتین نے ڈمپ ٹرمپ ریلی میں شرکت کی — فوٹو / رائٹرز

فرانس کے شہر پیرس میں بھی ایفل ٹاور کے قریب تقریباً 2 ہزار افراد جمع ہوئے جنہوں نے ’آزادی اور برابری ‘ جیسے الفاظ پر مبنی بینرز اٹھا رکھے تھے۔

پیرس میں موجود ایک امریکی شہری 30 سالہ کیندرا ویرگن نے کہا کہ ’میں یہاں تمام خواتین اور اقلیتوں کے لیے آواز بلند کرنے آئی ہوں کیوں کہ ٹرمپ پوری انسانیت کے لیے خطرہ ہیں‘۔

39 سالہ برازیلین شہری آندریا روسی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ وہ مارچ میں اس لیے شریک ہیں کیوں کہ وہ ایک عورت ہیں اور اس لیے بھی کہ وہ ہر اس چیز کے خلاف احتجاج کرنا چاہتی ہیں جو ٹرمپ کی نمائندگی کرتی ہے۔

اوسلو میں بھی خواتین نے ٹرمپ مخالف نعرے لگائے— فوٹو / رائٹرز
اوسلو میں بھی خواتین نے ٹرمپ مخالف نعرے لگائے— فوٹو / رائٹرز

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے ان سب لوگوں سے جھوٹ بولا جنہوں نے انہیں ووٹ دیا اور ایسا فرانس میں بھی ہوسکتا ہے۔

اس کے علاوہ بارسلونا، روم، ایمسٹرڈیم، بڈاپسٹ، پراگ، اوسلو، آکلینڈ، سڈنی، میلبرن، ویلنگٹن، جوہانسبرگ، برلن اور جنیوا میں بھی مظاہرین نے عورتوں کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے تضحیک آمیز بیانات کی مذمت کی۔

بارسلونا میں ایک پلے کارڈ پر لکھا تھا کہ ’جب نا انصافی قانون بن جائے تو مزاحمت فرض ہوجاتی ہے‘۔

جنوبی افریقا میں ہونے والے مظاہرے میں شرکاء نے جو پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ان پر ’سیاہ فاموں کی زندگی بھی معنی رکھتی ہے‘ جیسے جملے درج تھے۔

بیونس آئرس میں نئے امریکی صدر کے خلاف خواتین نے ریلی میں شرکت کرکے امریکیوں سے اظہار یکجہتی کیا — فوٹو / اے پی
بیونس آئرس میں نئے امریکی صدر کے خلاف خواتین نے ریلی میں شرکت کرکے امریکیوں سے اظہار یکجہتی کیا — فوٹو / اے پی

ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنی خاتون حریف ہیلری کلنٹن سمیت دیگر خواتین کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ صدر منتخب ہوگئے تو ہیلری جو جیل بھیج دیں گے۔

صدارتی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خواتین کے حوالے سے فحش گفتگو اور غلیظ خیالات پر مبنی وڈیو بھی منظر عام پر آئی تھی تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وڈیو پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’از راہ مذاق کی جانے والی گفتگو‘ قرار دے کر مسترد کردیا تھا۔

واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو امریکی صدر کے عہدے کا حلف اٹھایا اور امریکا کے 45 ویں صدر بن گئے تاہم ان کی حلف برداری کی تقریب کے دوران بھی امریکا میں وائٹ ہاؤس کے باہر دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

مشتعل مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ کی گئی تھی، جس کے بعد پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں اور پولیس نے مظاہرین کوروکنے کے لیے مرچوں والے اسپرے سمیت مظاہرین کی گرفتاری کا عمل شروع کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں