ذیل میں امریکا کی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کی جانب سے اپنی ویب سائٹ 'ریڈنگ روم' کے ڈیٹابیس کے لیے جاری کردہ ایک ڈی کلاسیفائڈ دستاویز ہے۔ اس سے پہلے ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات صرف کالج پارک میری لینڈ میں واقع نیشنل آرکائیوز میں دستیاب تھیں۔


1980 کے اوائل کی ایک ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر امریکی حکومت کو پاکستان کی جانب سے پلوٹونیم کشید کرنے والے ری پراسیسنگ پلانٹ کے بارے میں خبردار کرتے ہیں۔

یہ باتیں بین الاقوامی انٹیلیجنس پر امریکی صدر کو مشاورت فراہم کرنے والے سی آئی اے کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے نومبر 1982 میں 'امریکا پر اثر انداز ہونے والے عالمی واقعات' نامی رپورٹ میں کیں۔

'پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری' کے ذیلی عنوان میں یہ دستاویز اس وقت پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری کے بارے میں امریکی حکام کی معلومات کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

مزید بتایا گیا کہ پاکستانی نیوکلیئر بم کی تیاری کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ وہ ایک ایٹمی ہتھیار کی تیاری کے لیے آلات اور پرزہ جات خرید رہے ہیں، اور اطلاعات ہیں کہ اگلے دو ماہ میں وہ پلوٹونیم کشید کرنے کے لیے ری پراسیسنگ پلانٹ بھی شروع کر دیں گے۔ صدر ضیاء جانتے ہیں کہ ری پراسیسنگ کا کوئی بھی عمل — یہاں تک کہ وہ بھی جنہیں پاکستانی 'قانونی' سمجھتے ہیں — امریکا اور پاکستان کے سیکیورٹی تعلقات میں دراڑ ڈال سکتا ہے۔

ان افسر کا مزید کہنا ہے کہ اس دوران پاکستان کی ایٹمی سرگرمیوں میں چین کے شامل ہونے، یا ہندوستانی ردِعمل کے حوالے سے مزید کوئی معلومات نہیں آئی ہیں۔

"ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ" سے متعلق عوام میں جاری کی گئی ایک اور دستاویز 'ورلڈوائڈ رپورٹ' میں جولائی 1981 کی ایک جرمن اخباری خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کس طرح جرمن سائنسدانوں، اور اس وقت کے لیبیا کے حکمران قذافی نے 'خفیہ طور پر' پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے میں مدد دی۔

مضمون کی شروعات میں ہی کہا گیا ہے کہ "صرف چند دن قبل پاکستانی ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ملک کا ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا کوئی ارادہ نہیں، مگر خفیہ طور پر ایٹم بم بنانے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان کے مددگار فیڈرل ری پبلک آف جرمنی کے سائنسدان اور لیبیا کے حکمران قذافی ہیں، جو تیل سے کمائی گئی دولت پاکستان کو اس کام کے لیے فراہم کر رہے ہیں۔"

مضمون میں تین جرمن اور چار پاکستانیوں، 'بشمول ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار' کی ملاقات کا بھی ذکر ہے۔

رپورٹ کا اسکرین شاٹ۔
رپورٹ کا اسکرین شاٹ۔

"تیاری اپریل 1980 سے جاری ہے۔ 1982 تک پاکستان کے پاس پہلا ایٹم بم بنانے کے لیے خاصا ایٹمی مواد موجود ہوگا۔ اس خدشے کی وجہ سے امریکی، روسی اور اسرائیلی انٹیلیجنس ایجنسیاں 1970 کی دہائی کے وسط سے پریشان ہیں۔ وہ تفصیلات نہیں جانتیں، شاید جرمنز نے بھی اس معاملے کو ایسے نہیں دیکھا ہے کہ پاکستان تیزی سے ایٹمی قوت بننے کے قریب ہے۔

رپورٹ میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ "قذافی اور بھٹو نے اسلام آباد میں ایک خفیہ معاہدہ کیا ہے جس کے مطابق طرابلس کے فراہم کردہ فنڈز سے اسلام آباد ایٹم بم تیار کرے گا، جبکہ بدلے میں طرابلس کو تیار شدہ ایٹمی ہتھیار ملیں گے۔

مضمون میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ قذافی نے پی آئی اے کے طیاروں کے ذریعے 50 کروڑ ڈالر کراچی پہنچائے۔

"قذافی کو تیل کی دولت 'اسلامی بم' کی تیاری میں استعمال کرنے سے روکنے کے لیے آئی ایم ایف سرکاری کھاتوں کا حساب کر رہا ہے۔ اس لیے دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ اسمگلرز کی طرح ہوا۔ پاکستانی کی سرکاری ایئرلائن پی آئی اے کے ذریعے قذافی نے ڈالروں کی گڈیوں سے بھرے ہوئے سوٹ کیس روم سے کراچی تک پہنچائے۔"

رپورٹ کا اسکرین شاٹ۔
رپورٹ کا اسکرین شاٹ۔


مندرجہ بالا دستاویز ان 930,000 خفیہ دستاویزات میں سے ایک ہے جنہیں سی آئی اے نے 17 جنوری 2017 کو عام کیا ہے۔ 1999 سے سی آئی اے تاریخی اور عام دستیاب دستاویزات کو سی آئی اے ریکارڈز سرچ ٹول (کریسٹ) میں جاری کرتی رہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں