نئی دہلی: بھارتی سپریم کورٹ نے گائے ذبح کرنے پر ملک گیر پابندی عائد کرنے کے مطالبے کی درخواست مسترد کردی۔

واضح رہے کہ ہندوستان میں مذہبی عقیدت کی وجہ سے گائے کو مقدس قرار دیا جاتا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک سماجی کارکن نے بھارت بھر میں گائے ذبح کرنے پر پابندی عائد کرنے کی درخواست کی تھی، تاہم سپریم کورٹ نے اسے مسترد کردیا۔

واضح رہے کہ اگر سپریم کورٹ درخواست گزار کے حق میں فیصلہ دیتی تو اس کے نتیجے میں 1 ارب 25 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک بھارت میں گائے کے گوشت کے استعمال پر پابندی لگ سکتی تھی۔

ہندو مت میں گائے کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اسے ’ماں‘ تصور کرتے ہوئے گائے کو ذبح کرنا اور اس کا گوشت کھانا گستاخی قرار دیا جاتا ہے۔

تاہم بھارت میں مقیم لاکھوں اقلیتی برادریاں جن میں مسلمان، مسیحی اور ہندو مت کی نچلی ذاتیں شامل ہیں، گائے کے گوشت کا استعمال کرتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر علاقوں میں اس کی فروخت عام ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گائے چوری کا الزام، ایک اور ہندوستانی مسلمان قتل

دوسری جانب بھارت کی کئی ریاستیں ایسی بھی ہیں جہاں گائے کے گوشت کو فروخت کرنے پر طویل عرصے سے پابندی عائد ہے۔

بھارت کی 29 ریاستوں میں سے صرف 8 ریاستیں ایسی ہیں جہاں لوگوں کو گائے ذبح کرنے اور اس کا گوشت کھانے کی اجازت ہے۔

ملک بھر میں گائے ذبح کرنے پر پابندی کی پٹیشن کو رد کرتے ہوئے بھارتی سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جو ریاست پابندی لگانا چاہے وہ لگائے اور جو نہیں لگانا چاہتی وہ نہ لگائے، عدالت ریاست کے قوانین میں دخل انداز نہیں ہوگی۔

واضح رہے کہ بھارت کی متعدد مذہبی جماعتیں اور حکمراں جماعت بھارتیہ جنتہ پارٹی (پی جے پی) نے گائے ذبح کرنے پر ملک گیر پابندی کے حق میں طویل عرصے تک مہم جاری رکھی تھی۔

مزید پڑھیں: ہندوستان: ایک اور ریاست میں گوشت پر پابندی

2014 میں واضح اکثریت سے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی بی جے پی بھی عدالت سے گائے ذبح کرنے پر پابندی کی درخواست گزار تھی تاہم اب تک دہلی کی حکومت تمام ریاستوں کو اس حوالے سے متفق کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔

کئی ایسی ریاستیں جہاں بی جے پی کی حکومت قائم ہے وہاں گائے ذبح کرنے اور اس کے گوشت کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے لیے سزاؤں کو سخت کیا گیا۔

بھارتی حکمراں جماعت کے اشتعال کے نتیجے میں دو سال کے دوران اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی افراد گائے کے گوشت کے استعمال کے شبہ میں پکڑے اور قتل کردیئے گئے۔

اس حوالے سے مئی 2015 میں ہندوستانی پارلیمانی امور کے ایک وزیر کا بیان بھی منظر عام پر آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ جو گائے کا گوشت کھانے کا خواہشمند ہے وہ پاکستان چلا جائے۔

مختار عباس نقوی نامی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ منافع اور نقصان کی بات نہیں، بلکہ یہ عقیدے اور ایمان کی بات ہے اور ہندوؤں کے لیے یہ حساس معاملہ ہے، لہذا جو لوگ گائے کا گوشت کھانا چاہتے ہیں انہیں پاکستان یا کسی عرب ملک چلے جانا چاہیے جہاں یہ دستیاب ہے۔

2014 میں نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک 50 سالہ شخص کو گائے کا گوشت کھانے کے شبہ میں ہجوم نے گھر میں داخل ہوکر قتل کردیا تھا۔

تاہم فرانزک ٹیسٹ کے بعد انکشاف ہوا تھا کہ گائے کا گوشت کھانے کی افواہوں پر ہندوؤں کے ہاتھوں تشدد سے ہلاک ہونے والے محمد اخلاق نے اپنے فریج میں گائے نہیں بلکہ بکرے کا گوشت اسٹور کررکھا تھا.

ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے ڈسٹرکٹ دادری میں اس تشدد کے منظرعام پر آنے کے بعد مودی انتظامیہ کی بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی پر بین الاقوامی ردعمل بھی سامنے آیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں