کراچی: سندھ اسمبلی نے ’ریپ‘ کا شکار ہونے والوں کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے اور ایسے کیسز کی تحقیقات میں سہولت کا ترمیمی بل کوڈ آف کرمنل پروسیجر 2017 کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔

بل کے تحت ریپ کا شکار افراد کا ڈی این اے (ڈیوکسری بونوکیلک ایسڈ) ٹیسٹ لازمی ہوگا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق سندھ اسمبلی کے میں پیش کیے گئے 3 بلز ترمیمی بل سندھ آرمز 2017، ترمیمی بل پروونشل موٹر وہیکل 2015 اور ترمیمی بل کوڈ آف کرمنل پروسیجر 2017 کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔

منظور کیے گئے ترمیمی بل کوڈ آف کرمنل 2017 کے تحت متعلقہ پولیس افسر’ریپ‘ کا شکار بننے والی خاتون کے ڈین این اے ٹیسٹ کے لیے واقعے کے 72 گھنٹوں کے اندر نمونے لینے اور سرکار سے تسلیم شدہ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کا پابند ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل جمع

بل کے مطابق ڈی این اے نمونوں اور اس کے نتائج کو نہایت ہی رازاداری سے محفوظ کیا جا سکے گا۔

بل کو پیش کرنے کے بعد پارلیمانی امور کے وزیر نثار کھوڑو نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’ریپ‘ کا نشانہ بننے والوں کے مقدمات درج ہوتے ہیں، مگر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا جدید سائنسی تحقیقات سے فائدہ اٹھا رہی ہے، اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ’ریپ‘ کرنے والے ملزمان کی شناخت ممکن ہو چکی ہے۔

نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ بچیوں اور خواتین کو ’ریپ‘ کا نشانہ بنانے والے ملزمان کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ انتہائی اہم ہے، جس وجہ سے ہی حکومت نے ’ریپ‘ کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا۔

اس موقع پر شرمیلا فاروقی نے ایوان کو یاد دلایا کہ ان کی جانب سے 2013 میں پیش کی گئی قرارداد کو ایوان نے پاس کیا تھا، جس کے ذریعے ’ریپ‘ کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈی این اے ٹیسٹ کا اخلاقی جواز

شرمیلا فاروقی کے مطابق ماضی میں ڈی این اے کے نمونے اسلام آباد، لاہور اور ملتان بھیجے جاتے تھے، جس وجہ سے رپورٹس کئی ماہ بعد موصول ہوتی تھیں۔

متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کے فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ یہ مستقبل کے حوالے سے بہترین قانون ہے، جو ’ریپ‘ کا شکار بننے والوں کو انصاف کے حصول میں مدد فراہم کرے گا۔

انہوں نے علماء سے اس بل کی حمایت کرنے کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: اسلامی نظریاتی کونسل اور ڈی این اے ٹیسٹ

سندھ میں ایک بھی ڈی این اے لیبارٹری نہ ہونے کے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر سکندر میندھرو نے بتایا کہ صوبے میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو میں ڈی این اے لیبارٹری موجود ہے۔

ان کے مطابق یہ لیبارٹری ایک دن میں 10 نمونوں کی جانچ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

دوسری جانب بل کو جہاں متفقہ طور پر منظور کیا گیا، وہیں کئی اسمبلی ارکان نے اس بل کی ذاتی طور پر بھی حمایت کی، اسمبلی اجلاس کے دوران اسٹریٹ کرائمز سمیت دیگر کئی معاملات پر بھی بحث کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں