اسلام آباد: قومی اسمبلی نے ایک اہم بل کی منظوری دے دی ہے جو ملک کے پرانے جرگے اور پنچائیت کے نظام کو آئینی اور قانونی مدد فراہم کرتا ہے، اس اقدام کا مقصد عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم کرکے انتہائی سول نوعیت کے معاملات کو جلد از جلد حل کرنا ہے۔

وفاقی وزیر قانون کی جانب سے متعارف کرائے جانے والے بل پر اسلام آباد میں فوری طور پر عمل درآمد کا آغاز ہو جائے گا اور وقت کے ساتھ ساتھ دیگر صوبوں میں ان کی حکومتوں کی مشاورت سے نافذ کیا جائے گا کیونکہ سول قوانین میں ترامیم کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے۔

وفاقی وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ اس مقصد کیلئے یا تو وفاقی حکومت کی جانب سے درخواست کی جائے گی یا صوبے وفاق سے نئے قانون کے نفاذ کیلئے درخواست کریں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'یہ نظام گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں موجود ہے اور ہم اسے قانونی مدد فراہم کررہے ہیں'۔

تنازعات کا متبادل حل (اے ڈی آر) بل 2016، کی منظوری قومی اسمبلی میں موجود 23 اراکین نے دی، جس میں 17 حکومتی اراکین اور 6 اپوزیشن اراکین شامل ہیں، جبکہ ایوان میں اراکین کی مجموعی تعداد 342 ہے۔

وفاقی وزیر قانون نے ایوان کو بتایا کہ اے ڈی آر نظام کے تحت 23 قسم کے سول اور جرائم کے تنازعات کا فیصلہ کیا جائے گا۔

بل میں نشاندہی کیے جانے والے ان 23 تنازعات میں مکان مالک اور کرایے دار کے درمیان تنازع، قبضے کے تنازعات، زمین اور جائیداد کے تنازعات، چھوٹے موٹے دعووں اور معمولی جرم عدالتی آرڈیننس، 2002 کے تحت آنے والے سول تنازعات، کمرشل تنازعات تاہم ان میں کسی بھی قسم کا دعویٰ شامل نہ ہو، تجارت اور کامرس سے حقوق یا دلچسپی کے معاملات، معاہدے کے مقدمات، پیشہ وارانہ غفلت کے تنازعات، خاندانی تنازعات، جن میں شادی اور اس کی تحلیل کے معاملات شامل ہیں، خاص مقاصد کیلئے مقدمات، کمپنیوں اور بینک کے معاملات، انشورنس، قابل سمجھوتہ معاملات، ذاتی چوٹ، معاوضہ اور نقصانات کے مقدمات، ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹ کے مسائل، نہر اور نکاسی آب کے قانون کے تحت تنازعات، قابل منتقلی اثاثوں کی ریکوری کے معاملات، پارٹیشن کے ذریعے یا دوسری صورت میں مشترکہ غیر منقولہ جائیداد کی علیحدہ رکھنے کے تنازعات، مشترکہ جائیداد کے اکاؤنٹس کے چھٹکارے کے تنازعات اور دیگر شامل ہیں۔

اس کے باوجود کہ اپوزیشن میں شامل جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بل پر کچھ اعتراضات کیے تھے، تاہم انھوں نے بل کی منظوری دی اور کسی نے بھی کورم کی جانب نشاندہی نہیں کی جبکہ ایوان میں 23 اراکین موجود تھے۔

اے ڈی آر نظام کے تحت فیصلہ کرنے والے، جنھیں غیرجانبدار قرار دیا جائے گا، حکومت کی جانب سے تنازعات کا فیصلہ کرنے کیلئے نامزد کیے جائیں گے۔

وزیر قانون کے مطابق 'اس نظام کے تحت حکومت ہر ضلع میں غیر جانبداروں کا ایک پینل نامزد کرے گی جس کیلئے ہائی کورٹ سے مشاورت کی جائے گی اور عدالت ان تنازعات کے حل کیلئے غیر جانبدار نامزد کرے گی۔

پی ٹی آئی اور پی پی پی سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی نے بل کی حمایت کی تاہم ساتھ ہی اس پر اعتراض بھی کیا۔

پی ٹی آئی کے رہنما شفقت محمود نے پنچائیت کے نظام میں غیرجانبداروں کی نامزدگی کے حوالے سے سوال اٹھایا۔

پی پی پی کی نفیسہ شاہ اور پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے مذکورہ نظام میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا اور خواتین کو غیر جانبدار کے طور پر نامزد کرنے کا مطالبہ کیا۔

تاہم وفاقی وزیر قانون نے اس اُمید کا اظہار کیا کہ اس نظام کے تحت خواتین کے حقوق کو تحفظ ملے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'تنازع کا حل فریقین کی رضا مندی سے کیا جائے گا اور اگر کوئی عورت یہ سمجھے گی کہ اسے انصاف فراہم نہیں کیا گیا تو وہ عدالت سے رجوع کرسکتی ہے'۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اے ڈی آر نظام کے تحت حل ہونے والے تنازعات میں کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے۔

یہ رپورٹ 4 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں