اب جبکہ محمد زبیر عمر حلف اٹھا کر بطور گورنر سندھ ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں، تو 11 جنوری کو ریٹائرڈ جسٹس سعید الزماں صدیقی کی وفات کے بعد نئے گورنر کی آمد کے ساتھ گورنر ہاؤس کی رونقیں پھر سے بحال ہونے کو ہیں۔

مالیات، تجارت، کاروبار، سرمایہ کاری اور اسٹاک ایکسچینج کے رموز سے عمیق واقفیت رکھنے والے محمد زبیر کی گورنر ہاؤس میں آمد سے اس وفاقی گھر میں مسلم لیگی کارکنوں کی آوت جاوت اور سیاسی سرگرمیوں کا تو پتہ نہیں، البتہ شہر کراچی کے تمام کاروباری و تجارتی حلقوں کے لیے اس گھر کے دروازے کھل چکے ہیں، کیوں کہ محمد زبیر پاکستان کی معاشی شہ رگ کراچی کی تجارتی اور کاروباری برادری کے مفادات کے محافظ و امین کے طور پر گورنر ہاؤس میں بٹھائے گئے ہیں۔

گورنر ہاؤس کی سرکاری ویب سائیٹ پر دی گئی فہرست کے مطابق محمد زبیر سندھ کے 32 ویں گورنر ہیں، اس فہرست میں سے چار گورنر پاک فوج میں سے مقرر کیے گئے جبکہ ایک سابق گورنر کا تعلق ایئر فورس سے تھا۔

لیفٹیننٹ جنرل رخمان گل جولائی 1970 میں پاک فوج سے آنے والے پہلے گورنر تھے، جنہیں جنرل یحییٰ نے مقرر کیا تھا۔ بعد میں ذوالفقار بھٹو نے انہیں ہٹا کر ممتاز بھٹو کو تعینات کر دیا۔ ملک میں مارشل لاء کے بعد جنرل ضیاء الحق نے 1978 میں لیفٹیننٹ جنرل ایس ایم عباسی کو صوبے کا نیا گورنر تعینات کردیا، جنہوں نے 6 سال عہدے پر رہنے کے بعد گورنر ہاؤس لیفٹننٹ جنرل جہانداد خان کے حوالے کیا۔

1997 میں پھر فوج سے ہی ایک ریٹائرڈ جنرل کو منتخب کیا گیا۔ معین الدین حیدر 17 جون 1999 تک اسی عہدے پر رہے، جس کے بعد تین ماہ کے لیے موجودہ صدر ممنون حسین گورنر رہے لیکن پرویز مشرف نے انہیں 12 اکتوبر 1999 کو عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ ایئر مارشل عظیم داؤدپوتہ کو نیا گورنر تعینات کیا۔

ملک میں قلیل ترین اور طویل ترین مدت تک گورنری کا ریکارڈ بھی سندھ کے پاس ہے۔ ایک گورنر 14 سال تک گورنر ہاؤس میں بیٹھے رہے اور ایک صرف دو ماہ تک گورنر ہاؤس میں ٹھہرے۔ 2002 میں تعینات ہونے والے ڈاکٹر عشرت العباد 2016 تک پورے 14 سال گورنر کے عہدے پر براجمان رہے، جبکہ جسٹس سعید الزمان 11 نومبر 2017 کو گورنر بنے اور 11 جنوری 2017 کو دو ماہ پورے ہوتے ہی رحلت فرما گئے۔

گورنر کے لیے نامزدگی، سمری، منظوری، نوٹفکیشن اور حلف برداری، یہ تمام آئینی اور قانونی تقاضے ہیں لیکن اس اہم عہدے پر مقرری کے لیے کام صرف ان تقاضوں پر عمل پیرائی سے نہیں چلتا، بلکہ یہاں تک پہنچنے سے پہلے مجاز اتھارٹی کو ایک لمبی مشق کرنی پڑتی ہے۔ فوجی حکومتوں میں تو طریقہ آسان ہے۔ جی ایچ کیو یا کیمپ آفس سے حکمنامے کے عین مطابق پہلے سے نامزد کردہ امیدوار کا نوٹفکیشن جاری کر دیا جاتا ہے۔

کسی بھی سیاسی حکومت میں نامزدگی سے پہلے مشاورتوں، رابطوں اور بیٹھکوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو مجاز اتھارٹی کی طرف سے تجدیدِ عہد وفا کے لیے کئی امیدواروں سے انٹرویو بھی کیے جاتے ہیں۔

پڑھیے: عشرت العباد تبدیل، جسٹس سعید الزماں گورنر سندھ مقرر

یہ مجاز اتھارٹی تمام امیدواروں کو ملکی مفاد کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی مفادات کے تحفظ، اطمینان و اعتماد، پسند و ناپسند، وفاداری و بے وفائی، اصول پسندی اور مصلحت پسندی کی ترازو میں تولتی ہے۔

یہ ساری مشق ارباب اختیار اس لیے بھی کرتے ہیں کہ کہیں عہدہ ملنے کے بعد وہ عام سا شخص پَر نکال نہ بیٹھے اور ہمیں کہیں اپنے کیے پر پچھتانا نہ پڑ جائے۔

تقرری کے لیے یہ مشق اقتدار کے مسند پر بیٹھے بااختیار لوگ کرتے ہیں، لیکن نچلی سطح پر تو آس امید، خواب اور خیالی پلاؤ کا ایک سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ جہاں گورنر لگنا ہوتا ہے وہاں ایک اور مشق شروع ہو جاتی ہے۔ صرف گورنر ہی نہیں کسی بھی بڑے انتظامی، سرکاری اور عوامی عہدے کے لیے وہی مشق کی جاتی ہے۔

کوئی بھی بڑا عہدہ خالی ہوتے ہی کئی خودساختہ امیدوار اپنی شیروانیوں کو الماریوں سے نکال لیتے ہیں۔ جن کے پاس واسکٹ نہیں ہوتیں وہ درزریوں سے رابطہ کر لیتے ہیں، کئی بے پہنچ اس خالی کرسی کو حسرت بھری نظروں سے تاک رہے ہوتے ہیں، کئی اس کرسی تک پہنچنے کے شارٹ کٹ ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں، بڑے عہدے کی حاصلات کے لیے امیدواروں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں۔

لہٰذا جب گورنر ہاؤس سندھ خالی ہوا تو امیدواروں کی لائن دن بہ دن لمبی ہوتی چلی گئی۔ حکومت نے کئی ناموں پر اپنی کچن کابینہ سے مشاورت کی۔ امیدواروں سے ملاقاتیں کم، لیکن پیغام رسانی کا عمل تیز کیا گیا۔ مرکزی حکومت نے کم از کم دس افراد کو تو اس عہدے کے لیے ہائی الرٹ پوزیشن پر رکھا۔

جن امیدواروں کو مرکز نے آسرا دے رکھا تھا، ان میں سے چند امیدواروں کو اعلیٰ قیادت تک براہ راست رسائی حاصل تھی، تو کچھ امیدواروں نے مڈل مین کی خدمات حاصل کیں، جن کا کام یہ تھا کہ امیدوار کی قابلیت اور اہلیت اعلیٰ قیادت تک جا کر پہنچائے۔

میں ایسے کئی امیدواروں کو جانتا ہوں جنہوں نے گورنر بننے کے لیے خود کو امیدوار ظاہر کیا یا جن سے مرکزی سرکار نے بالواسطہ یا بلاواسطہ رابطہ کیا تھا۔

11 جنوری 2017 کے بعد گورنر کی تعیناتی کے لیے مشاورتی عمل شروع ہوتے ہی کراچی سے اسلام آباد پہچنے والی پہلی شخصیت اسماعیل راہو تھی۔ یہ خبریں ٹی وی چینل پر بھی نشر ہوئیں کہ وزیراعظم نے انہیں مشاورت کے لیے اسلام آباد بلایا ہے۔

پڑھیے: ن لیگ کے محمد زبیر نئے گورنر سندھ ہوں گے

ہماری بات جب اس پہلے امیدوار سے ہوئی تو انہوں نے نہ صرف ان خبروں کی تردید کی بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ نہ وزیرِ اعظم سے کسی ملاقات کا شیڈول ہے اور نہ ہی کوئی مشاورت کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ وہ سچ کہہ رہے تھے، مگر ان کا نام اس لیے لیا جا رہا تھا کہ وہ مسلم لیگ نواز کے صوبائی صدر ہیں۔ اس دوڑ میں اسماعیل راہو اکیلے ہی نہیں بلکہ سندھ کے تین سابق وزرائے اعلیٰ بھی تھے، اور ان تینوں کو بھی بیک وقت آسرے میں رکھا گیا۔

مسلم لیگ نواز نے اس بار سندھ کی تنظیم کو بالکل ویسے ہی 'انتظار فرمائیے' کی پوزیشن پر رکھا، جیسے ایوان صدر کی دوڑ میں رکھا گیا تھا اور پوری جماعت کو آسرے میں رکھ کر ایک غیر معروف شخص کو ایوانِ صدر میں بٹھا دیا گیا۔

اس وقت غوث علی شاہ کے لیے بھی یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ان کا نام صدارت کے لیے زیر غور ہے۔ غوث علی شاہ میاں محمد نواز شریف کے دیرینہ ساتھی ہیں۔ 12 اکتوبر 1999 کو انہیں بھی گرفتار کیا گیا تھا، انہوں نے کئی دن جیل کاٹی، پھر میاں صاحب کے ساتھ لندن میں جلاوطنی کے دن بھی گزارے۔

نواز لیگ کے اس معمر رکن نے صدر مملکت کے عہدے کے لیے نظر انداز ہونے پر اقتداری ایوانوں کے مسند نشینوں سے ناراض ہو کر اپنی گاڑی موڑی اور اپنے گاؤں چلے گئے۔ ان کی ناراضگی ختم کرنے کی غرض سے ان کا نام بھی متوقع گورنرز کی فہرست میں ڈال دیا گیا، مگر یہ نام صرف فہرست تک ہی محدود رہا۔

اسی طرح ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ جنہوں نے کبھی اپنی فرنٹ نامی پارٹی کو مسلم لیگ نواز میں ضم کیا تھا، انہیں بھی آسرا دیا گیا اور یہ ایسا آسرا تھا کہ ممتاز بھٹو کے صلاحکار بیٹے کو میاں شہباز شریف سے ملاقات کرنی پڑ گئی۔ شاید اس ملاقات میں بھی یہ ہی بتایا گیا کہ نام زیرِ غور ہے بس تھوڑا انتظار۔

سندھ کے ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ ارباب رحیم کو ان کی ماضی کی شاندار انتقامی کارروائیوں کی داد کے طور پر یہ کہا گیا کہ آپ کو بھی گورنر ہاؤس کی ذمے داریاں تفویض کی جا سکتی ہیں۔ دو دن ارباب کے لوگ بھی تھری ماڑھوؤں کو یہ کہتے سنائی دیے کہ "ہوشیار ہوجاؤ ارباب آ رہا ہے۔"

اسی طرح سندھ سے تعلق رکھنے والے اُن چار سینیٹروں کو بھی گورنر تعینات کرنے کا تھوڑا بہت آسرا دیا گیا، جن کے ناموں نے میڈیا پر بھی گردش کی۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان تو شریف خاندان کے انتہائی وفادار شخص ہیں ان کے پاس تو چودھری نثار کی مضبوط سفارش بھی تھی۔ لیکن کیا کرتے ان کے آڑے وہ انٹرویو آ گیا جو انہوں نے ایک غیر ملکی ادارے کو دیا، جس کی پاداش میں انہیں وزارت سے بھی ہاتھ دھونے پڑگئے۔ سننے میں تو یہ آ رہا تھا کہ ان کا نام تو فہرست میں پہلے نمبر پر تھا، لیکن آخر میں انہیں یہ کہہ دیا گیا کہ وہ پرانا انٹرویو ابھی تک بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ واضح رہے کہ مشاہداللہ خان نے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ عمران خان کا دھرنا حکومت کے خاتمے کی سازش تھا۔

سینیٹر نہال ہاشمی اس بھیڑ میں تنہا شخص ہیں، مرکز میں ان کا ایک بھی سفارشی نہیں۔ وہ از خود امیدوار ضرور تھے لیکن پہلی بات یہ کہ کسی معزز جج کے ساتھ ملاقات کی خبر نے ان کا پتہ کاٹ دیا اور دوسری بات یہ کہ وہ اپنے مزاج کی وجہ سے اس عہدے کے اہل نہیں سمجھے گئے، مگر گھوڑے تو انہوں نے بھی اس عہدے کے لیے دوڑائے تھے۔

سینیٹر راحیلہ مگسی کو تو اتنا پختہ آسرا ملا کہ انہوں نے یہ بات اپنی ایک سرکاری افسر سہیلی سے کر دی، جس نے اپنے دفتر میں یہ کہا کہ میاں صاحب نے خود میڈم کو فون پر بتایا ہے کہ آپ پکی امیدوار ہیں بس گورنر ہاؤس جانے کی تیاری کر لیں۔

اسی طرح سابق وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کے بیٹے اسد جونیجو کو سندھڑی میں یہ پیغام پہنچایا گیا کہ آپ میرے مرحوم دوست کے بیٹے ہیں، آپ کو اہم ذمہ داری مل سکتی ہے۔ بیگم شاہد حامد کراچی میں کسی اہم اعلان کی منتظر تھیں، اس طرح ایک دو اور ریٹائرڈ فوجی اور سویلین ریٹائرڈ افسران بھی تھے، مگر سب کے سب سانسیں تھامے رہے، اور 'انتظار فرمائیے' کے طویل انتظار کا خاتمہ ان افراد کے لیے کسی خوش خبری پر نہ ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں