اسلام آباد: سینیٹ میں ہندو میرج بل 2017 کی متقفہ طور پر منظوری کے ذریعے ملک میں ہندو کمیونٹی کیلئے پہلا قانون متعارف کردیا گیا ہے۔

اس بل کو قانون کا حصہ بنانے کیلئے صدر مملکت کے دستخط کی ضرورت ہے جو آئندہ ہفتے تک متوقع ہیں، جس کے بعد اسے قانون کے طور پر نافذ کردیا جائے گا، اس سے قبل 26 ستمبر 2015 کو قومی اسمبلی نے اس بل کی منظوری دی تھی۔

اس بل کے ذریعے ہندو خواتین کو شادی کا دستاویزی ثبوت حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

یہ ہندو کمیونٹی کیلئے ملک کا پہلا قانون ہے جو پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قابل عمل ہوگا کیونکہ سندھ اسمبلی اس سے قبل صوبے کیلئے ہندو میرج کا قانون متعارف کراچکی ہے۔

وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے سینیٹ میں پیش کیے جانے والے بل پر کسی نے بھی اعتراض یا مخالفت نہیں کی، کیونکہ اس میں تمام سینیٹرز، تمام سیاسی جماعتوں کے قومی اسمبلی میں موجود اراکین اور متعلقہ قائمہ کمیٹی کی سفارشات کو شامل کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ہندو میرج بل قومی اسمبلی سے منظور

یہ بل سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 2 جنوری کو بھاری اکثریت سے منظور کیا تھا۔

لیکن جمعیت علماء اسلام (ف) کے سینیٹر مفتی عبدالستار نے بل کی مخالفت کی تھی جن کا دعویٰ تھا کہ آئین اس قسم کے معاملات سے نمٹنے کیلئے کافی ہے۔

بل کو منظور کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے تعلق رکھنے والی کمیٹی کی چیئرمین سینیٹر نسرین جلیل نے اعلان کیا تھا کہ 'یہ غیر منصفانہ عمل ہے — ناصرف اسلامی تعلیمات کے خلاف بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی — کہ پاکستان میں موجود ہندو برادری کیلئے ہم کوئی ایک ذاتی خاندانی قانون متعارف نہیں کراسکیں ہیں'۔

بل کی حمایت کرتے ہوئے سینیٹر اعتراز احسن، سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدین اور سینیٹر ستارہ ایاز نے کہا تھا یہ صرف پاکستان میں بسنے والے ہندووں کی شادی کے حوالے سے ہے اور اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔

ڈاکٹر رمیش کمار نے بل کی منظوری پر پارلیمینٹرینز کا شکریہ ادا کیا، وہ گذشتہ 3 سال سے ملک میں ہندووں کی شادی کے قانون کو متعارف کرنے کیلئے کام کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی میں ہندو میرج بل منظور

ان کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کا قانون زبردستی مذہب کی تبدیلی کی حوصلہ شکنی کرے گا اور ایک ہندو کی شادی کے بعد ہندو کمیونٹی کیلئے کارکر ثابت ہوگا'۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس بل کی منظوری سے قبل ایک ہندو عورت کیلئے دشوار تھا کہ وہ اپنے شادی شدہ ہونے کا کوئی ثبوت پیش کرسکے جو کہ مذہب کی زبردستی تبدیلی کے معاملات پر اثر انداز ہورہا تھا۔

یہ قانون ہندو کمیونٹی کی شادی کی دستاویز 'شادی پراتھ' — مسلمانوں کیلئے متبادل نکاح نامہ کی طرح کی دستاویز — ہے جس پر پنڈت کے دستخط ہوں گے اور حکومت پاکستان کا متعلقہ محکمہ اس کو رجسٹر کرے گا۔

تاہم، ہندو پارلیمنٹرینز اور کمیونٹی کے اراکین نے بل کی ایک شق پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جو 'شادی کی منسوخی' سے متعلق ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اگر میاں یا بیوی میں سے کوئی ایک مذہب تبدیل کرلے تو وہ علیحدگی اختیار کرنے کیلئے عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔

ڈاکٹر رمیش کمار کا کہنا تھا کہ 'ہم یہ چاہتے ہیں کہ علیحدگی کی وجہ مذہب کی تبدیلی سے قبل بتائی جائے کیونکہ اس کے ذریعے شرپسندوں کو ایک شادی شدہ خاتون کو اغوا اور اسے غیر قانونی حراست میں رکھنے کا موقع مل جائے گا اور جس کے بعد اسے عدالت میں ایک پٹیشن کے ساتھ پیش کردیا جائے گا کہ وہ مسلمان ہوگئی ہے اور ایک ہندو کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی'۔

تاہم بل کو پاکستان میں موجود ہندووں کی جانب سے وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی ہے کیونکہ یہ ہندوؤں کی شادی، شادی کی رجسٹریشن، علیحدگی اور دوبارہ شادی سے متعلق ہے جس میں لڑکا اور لڑکی، دونوں کی شادی کی کم سے کم عمر 18 سال مقرر کی گئی ہے۔

#### یہ رپورٹ 18 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں