خرم حسین ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
خرم حسین ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

میں جب کبھی بھی سوچتا ہوں کہ بڑے اور طاقتور سیاستدانوں کی جانب سے بدعنوانی کا راستہ روکنا ایک بہت ہی شاندار خیال ہے تب میں ملک قیوم کی مثال کے بارے میں سوچنے لگ جاتا ہوں۔ کیا آپ کو وہ یاد ہیں؟

اگر آپ کسی صورت ان سے نا آشنا ہیں تو یہاں ان کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔ قیوم ذیلی عدالتوں کے جج تھے جنہوں نے حدیبیہ انجینیئرنگ کیس کی سماعت کی تھی۔ جی ہاں، کسی زمانے میں ہمارے پاس، حدیبیہ پیپر ملز، انجینیئرنگ کی صنعت و تجارت تھی۔ وہ 1990 کی دہائی کے وسط میں بینظیر بھٹو کی حکومت کا دوسرا دور تھا۔ اس دور میں ہونے والے ’دھماکہ خیز’ انکشافات پر چلنے والے مقدمات میں سے ایک اصغر خان کیس تھا، ایک ایسا ہی دوسرا معاملہ جس میں پیسوں کے بیگ اور طاقتور سیاستدان شامل تھے۔ یاد ہے؟

ہوا یوں کہ ملک قیوم کے فیصلے میں ان دنوں حال ہی میں ہونے والی ایک قانون سازی کا ایک ایسا بنیادی طور پر مفہوم پیش کیا جس کے تحت بھاری تعداد میں منی لانڈرنگ اسکیم، ریزیڈنٹ فارین کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے، کے دروازے کھل گئے۔ ملک قیوم نے بڑی ہی وضاحت کے ساتھ قلمبند کیا کہ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت کے دوران ترتیب دیے گئے اور منظور کیے جانے والے تحفظ معاشی اصلاحات ایکٹ یا پروٹیکشن رفارمز ایکٹ (پیرا) کے تحت کسی بھی سرکاری افسر یا محکمے کو فارین کرنسی اکاؤنٹ کے بارے میں تحقیقات کا اختیار حاصل نہیں ہے۔

اس طرح نہ صرف اس کیس میں ملوث ملزمان ان مقدمات سے بری ہو گئے جس میں مبینہ طور پر ڈھیروں بے نامی اکاؤنٹس کو ان میں منتقل ہونے والی رقوم کے ذرائع کو مبہم کرنے لیے استعمال کیے گئے تھے، بلکہ جب دیگر نے بھی ان چالبازیوں کا استعمال کیا تو اس فیصلے کا سہارا لیا گیا۔

اگرچہ پیرا کی وہ تشریح مسئلے کا باعث تھی۔ جب وہی مقدمہ مئی 1997 میں سپریم کورٹ کے زیر سماعت آیا تو اس وقت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ کے تحت حاصل رعایت کا تعلق صرف فنڈز یا رقوم کے ذرائع کے بارے میں پوچھنے کی حد تک ہے، خاص طور پر ٹیکس مقاصد کے لیے۔ اگر فارین کرنسی اکاؤنٹ میں ہونے والی سرگرمیوں کے خلاف کوئی فوجداری کیس داخل ہے تو پھر اس پر ہونے والی تحقیقات میں پیرا کی جانب سے حاصل رعایت نہیں کی جاتی۔

اس طویل اذیت ناک درد سے بھری کہانی کو مختصر کرتے ہیں، ایکٹ پر ملک قیوم کا مفہوم ہی آگے تک قائم رہا۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس میں زبردست عدالتی میرٹ شامل تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایسی کارروائیوں میں شامل افراد کے لیے آسانی سے قابل استعمال بھی تھی۔ اور آنے والے برسوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ناجائز طریقوں سے حاصل کردہ منافع، ٹیکس معاف دولت، اور ٹریڈ ویلیوز کی غلط بیانی کے ذریعے جمع شدہ رقوم کو بنیادی طور پر جائز رقم میں ڈھالنے کے لیے فارین کرنسی اکاؤنٹس کی اسکیم کا غلط استعمال کیا۔

1997 میں جب نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آتے تو انہوں نے ملک قیوم کو لاہور ہائی کورٹ تک ترقی دی جہاں اس چالاک وکیل سے جج بن جانے والے شخص کو جب لاہور ہائی کورٹ کی احتساب بینچ کے لیے نامزد کیا گیا تب بینظیر بھٹو کے خلاف مقدمات کی سماعت کا کام سونپا گیا۔ یہی وہ عدالتی کارروائیاں تھیں جن کے دوران بینظیر بھٹو کے وکلا کی جانب سے ملک قیوم اور دوسری پارٹی کے ساتھ ہونے والی ٹیلے فون پر گفتگو کی ریکارڈنگ چلائی گئی جس میں انہیں بینظیر کے خلاف مقدمے کے فیصلے پر اثر انداز ہونے کے طریقوں پر گفتگو کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔ ملک قیوم نے دعویٰ کیا کہ ریکارڈنگ جھوٹی تھی مگر اس ریکارڈنگ سے ابھرنے والا تنازع ان کے کریئر کے خاتمے کے لیے کافی تھا۔ اُس وقت کے لیے۔

بعد میں پرویز مشرف نے ملک قیوم کو دوبارہ لا کر اٹارنی جنرل کے عہدے پر فائز کر دیا۔ کوئی بھی شخص جس نے شریف خاندان پر کیچڑ اچھالا تھا یا بھٹو خاندان کے مقدمات کی سماعت کرنے کا تجربہ تھا، وہ جنرل کے لیے کار آمد تھا۔ 2008 کے بعد جب زرداری حکومت اقتدار میں آئی تو انہوں نے ملک قیوم کو اٹارنی جنرل کے عہدے پر بحال رکھا اور انہیں سوئس حکام کو خط لکھ کر بینظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف تمام مقدمات خارج کرنے پر دباؤ ڈالا، اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔

ملک قیوم کی کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب بات بڑے پیمانے پر ہونے والی بدعنوانی کے ناسور کے آگے ہماری ریاست اور اس کے ادارے کس قدر بے کمزور ہیں۔ وہ قریب دو دہائیوں تک سیاسی فٹ بال کی طرح اِدھر سے اُدھر ہوتے رہے۔ وہ بھٹو خاندان کے خلاف مقدمات میں پیش رفت میں اہم کردار ادا کیا اور پھر وہ ان کے ہی ہاتھوں انہی مقدامات کو اس وقت خارج کر دیا گیا تھا جب ان میں زبردست حد تک پیش رفت ہو چکی تھی۔ وہ شریف خاندان کو جب مجرمانہ الزامات کا سامنا تھا تب انہیں مقدمات سے بری کروانے میں بھی سرگرم رہے، جن کی باز گشت ایک بار پھر سپریم کورٹ میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ انہوں نے شریف خاندان کے حلفیہ دشمن پرویز مشرف کے لیے اٹارنی جنرل کی خدمات انجام دیں، جس دوران، 2008 کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے شریف خاندان کی پاکستان آمد کو روکنے کی خاطر قانونی جواز پیدا کرنے میں ان کی مدد کی۔'

میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ان اعمال کے ذاتی طور پر ذمہ دار تھے جن کے وہ اہم کردار بنے۔ مگر قریب سے دیکھنے پر آپ کو یہ تھوڑا بہت یہ جاننے کو ضرور ملے گا کہ جب اس ملک میں بدعنوانی کے الزامات پر کارروائی ہوتی ہے تو مشینری کس قدر خود کو تبدیل کر لیتی ہے۔ ایک مختصر عرصے کے لیے وہ اس مشین کا ایک اہم پرزہ تھے، جب بھی بدعنوانی سے متعلقہ کسی معاملے میں آبال آتا تو وہاں یہ شخص حاضر حاضر ہوتا۔ اس کہانی میں اہم نکتہ یہ شخص اور اس کے ارادے نہیں ہیں بلکہ وہ مشین ہے جس نے اسے پیدا کیا اور اسے ہر بار استعمال کیا۔

آج وہ مشین زبردست حد تک پختہ ہو چکی ہے۔ مثلاً، آپ جب ذرا غور کریں گے کہ کس طرح خانانی اور کالیہ کے خلاف مقدمہ انتہائی کمزور ہو گیا تو آپ کو ایک بار پھر آپ کو اس مشین کا کردار نظر آ جائے گا۔ دیکھیے کہ جب بھی ریاست کا کوئی ادارہ کسی بڑی مچھلی کے لیے جال بچھاتا ہے تو کس طرح اس کی متعلقہ ریگولرٹی اور نگرانی کرنے کے کردار ماند پڑ جاتے ہیں — کمپیٹیشن کمیشن انتہائی کمزوریوں کا شکار ہے، اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان تو محض ایک مذاق تک ہی محدود ہو گیا ہے اور ایسی دیگر مثالیں بھی ہیں۔

میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ریاست کے ہر ادارے کو دہائیوں سے جاری اقتدار کی اس جدوجہد نے اس قدر روند دیا ہے کہ ایک یا دو سال بعد اقتدار پا لینے کے ساتھ ہی ہر پیمانے کو کرو یا مرو والی صورتحال میں ڈال دیتی ہے۔ یہ جدوجہد دیگر تمام اداروں کو اپنی آگ میں کھینچ لیتی ہے، ان کی تمام شرائط پر گفتگو محدود کر دیتی ہے، کسی مسئلے پر دو اطراف کے درمیان لکیر کھینچ دیتی ہے اور ایک ایک کر کے ہر کسی کو اپنی اپنی ٹیم منتخب کرنے پر زور ڈالتی ہے۔

مختصراً کہیں تو یہ ہماری سیاست سے آکسیجن نکال دیتی ہے اور ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے کہ جس میں وہ جو ڈیل توڑنے اور اپنی ترقی کو تحفظ دینے کے راضی ہوتے ہیں وہ تیزی سے ترقیاں پاتے ہیں، جبکہ باقی ان حالات کی مایوسیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔ بدعنوانی اور نہ ختم ہونے والی اقتدار کی جدوجہد جو کہ ہماری سیاست ہے ایک دوسرے کے سامنے رکھے دو شیشوں کی مانند ہیں: جو ایک دوسرے پر نہ ختم ہونے والے عکس چھوڑتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 23 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں