’سعودی عرب پاکستانی مخنثوں کو رہا کرے‘

07 مارچ 2017
پولیس حراست میں 2 مخنث افراد ہلاک بھی ہوئے، فرزانہ جان—فوٹو: ڈان اخبار
پولیس حراست میں 2 مخنث افراد ہلاک بھی ہوئے، فرزانہ جان—فوٹو: ڈان اخبار

پشاور: مخنثوں کی نمائندہ تنظیم ٹرانس ایکشن الائنس اور سول سوسائٹی کی بعض تنظیموں نے سعودی عرب میں 35 مخنثوں کی گرفتاری پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ گرفتار مخنثوں کو رہا کیا جائے۔

ٹرانس ایکشن الائنس نے مطالبہ کیا کہ سعودی حکومت گرفتار افراد سے متعلق تفصیلات جاری کرے تاکہ ان کے اہل خانہ ان کی رہائی کے لیے ضروری اقدامات کی کوشش کریں۔

ٹرانس ایکشن الائنس کی صوبائی صدر فرزانہ جان نے پشاور پریس کلب میں نیوز کانفرنس کے دوران مخنث افراد کی گرفتاری اور پولیس حراست میں 2 افراد کی ہلاکت سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کو کن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا اور یہ بھی بتایا جائے کہ اگر وہ زندہ ہیں تو ان کی طبعی حالت کیسی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں پولیس حراست میں 2 مخنثوں کی ہلاکت سے متعلق معلوم ہوا ہے ، مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان کی لاشیں کہاں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’مخنث سماجی کارکنان‘ کو سینیٹ اجلاس میں مدعو کرنے کا فیصلہ

سعودی حکومت سے گرفتار مخنثوں انسانی ہمدری کے تحت رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے فرزانہ جان نے کہا کہ اگر ہلاک ہونے والے 2 مخنثوں کی لاشیں جلائی نہیں گئیں تو وہ بھی ان کی تنظیم کے حوالے کی جائیں۔

ان کے مطابق عزیزیہ پولیس اسٹیشن کے اہلکاروں نے مخنثوں کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ 26 فروری کو ریاض میں ہونے والی ایک میٹنگ کے لیے جمع ہوئے، پولیس کی جانب سے انہیں اٹھائے جانے کے دوران تشدد کے نتیجے میں سوات سے تعلق رکھنے والی امینہ اور پشاور کی مینو ہلاک ہوگئیں۔

پریس کانفرنس کے دوران سماجی کارکن قمر نسیم اور پختونخوا سول سوسائٹی نیٹ ورک کے کوآرڈینیٹر تیمور کمال ان کے ساتھ موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ وہ سعودی عرب میں مخنث برادری سے متعلق صرف نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس (این سی ایچ آر) اور سینیٹر فرحت اللہ بابر جو سینیٹ کی کمیٹی برائے لاپتہ افراد کے رکن ہیں ان کے سامنے معلومات بتانے کو تیار ہیں، کیوں کہ اس معلومات سے سعودی عرب میں مقیم متعلقہ افراد کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

مزید پڑھیں: مخنثوں سے شادی جائز ہے، فتویٰ

مخنث افراد کی نمائندہ تنظیم کی صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ اگر گرفتار کیے گے افراد نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے، کیوں کہ کوئی بھی صنفی شناخت کے حوالے سے سزا کا مستحق نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گرفتار کیے گئے 35 افراد کا تعلق کراچی، سرگودھا، چارسدہ، پشاور اور مردان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں سے ہے۔

اس موقع پر قمر نسیم کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی کے نمائندوں نے وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر مشتاق احمد غنی اور محکمہ انسانی حقوق کے عہدیداروں سے بھی ملاقات کرکے انہیں مخنثوں کی گرفتاری کے مسئلے سے آگاہ کیا ہے۔

تیمور کمال نے کہا کہ انسانی حقوق کے ڈائریکٹوریٹ کو معاملے کا نوٹس لے کر سعودی عرب کی جیلوں سے مخنثوں کی آزادی میں کردار ادا کرنا چاہئیے۔


یہ خبر 7 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

imran Mar 07, 2017 02:10pm
اہم سوال یہ ہیکہ اتنے سارے ایک طرح کے لوگ سعودیہ جیسے سخت ملک میں ( جہاں کسی بھی اجتماع کی پیشگی اجازت لینی پڑتی ہے اور جہاں ڈریس کوڈ پر خاص نظر رکھی جاتی ہے ) کس قسم کا اجلاس کر رہے تھے ؟؟ کیا سعودیہ کو پاکستان سمجھ لیا تھا جہاں کوئی پوچھنے والا ہی کوئی نہیں ہے !!!