اسلام آباد: فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق آئین میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا جس پر ارکان پارلیمنٹ کے درمیان گرما گرم بحث ہوئی۔

وفاقی وزیرقانون زاہد حامد نے 28 ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے سب سے زیادہ مخالفت کی۔

ابتدائی طور پر تنقید کے بعد شیخ رشید نے بل کی حمایت کا اعلان کردیا تاہم محمود خان اچکزئی مخالفت میں ڈٹے رہے۔

قومی اسمبلی میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 'ہم نے حکومت کو اپنے موقف سے آگاہ کردیا تھا، اس بل کی حمایت کرکے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا'۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع پر اتفاق

محمود اچکزئی نے کہا کہ 'اس بل کی حمایت اعلی عدلیہ کے ججوں پر عدم اعتماد ہوگا، ہمارے کارکن اسلام اور جمہوریت زندہ باد کہنے کی پاداش میں مارے گئے، افواج پاکستان نے سیاست میں حصہ نہ لینے کا حلف اٹھایا ہے، آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر صدر کا مواخذہ ہوسکتا ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم آئین میں مساوی شہری ہیں،انصاف کی بات کرنے پہ نواز شریف کو غیر مشروط حمایت کا یقین دلایا تھا لیکن ہماری ساتھ انصاف نہیں ہو رہا، پختونوں کو دہشت گرد بنایا جا رہا ہے'۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ 'سال گزار کر بندہ برطانوی شہری بن سکتا ہے، جن کی نسلیں یہاں پیدا ہوئیں،جوان ہوئیں ان کو نکالا جا رہا ہے'۔

محمود اچکزئی نے استفسار کیا کہ 'دو سال پہلے فوجی عدالتوں کو قائم کرنے کے کیا نتائج نکلے'؟

محمود اچکزئی نے مطالبہ کیا کہ 'جن ججوں نے مارشل لاء کی مخالفت کی انہیں قومی ہیرو قرار دیا جائے، جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا ان کی مذمت کی جائے جبکہ افواج پاکستان کا کوئی ذمہ دار شخص ماضی کی غلطیوں پر معذرت کرے اور یہ بھی یقین دلایا جائے کہ آئندہ وہ غلطی نہیں دہرائیں گے'۔

محمود اچکزئی نے کہا کہ 'یہ تمام یقین دہانیاں کرائی جائیں گی تو ہی بل کی حمایت کروں گا ورنہ نہیں'۔

اس موقع پر شیخ رشید نے کہا کہ 'بلوچستان کی صورتحال پاکستان کی طرح خطرناک دیکھ رہاہوں، اسی مسودے کو پچھلی دفعہ سیاستدانوں نے قبول کیا کیوں کہ راحیل شریف اور رضوان اختر بیٹھے ہوئے تھے'۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی : فوجی عدالتوں میں توسیع کا ترمیمی بل پیش

انہوں نے کہا کہ 'پنجاب میں ٹرائل کے بغیر سب سے زیادہ لوگ مارے گئے، کوئی سیاستدان ایسا نہیں جس نے مارشل لاء سے جنم نہ لیا ہو'۔

انہوں نے کہا کہ 'کیا فوجی عدالتوں کے قیام سے نتائج نکلیں گے؟ کیا یہ انصاف لا سکیں گی؟'

شیخ رشید نے تقریر کرنے کے بعد فوجی عدالتوں کے بل کی حمایت کا اعلان کردیا ۔

پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی نوید قمر نے کہا کہ 'یہ شرمناک دن ہے کہ ہم حالات کو اس ڈگر پر لے آئے ہیں کہ ہمیں آئینی نظام پر اعتبار نہیں رہا، ان حالات کے ہم سب ذمہ دار ہیں، مجھے یقین نہیں ہے کہ 2 سال بعد حالات ٹھیک ہوجائیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'فوجی عدالتیں عارضی طور پر 2 سال کے لئے بنائی گئی تھیں، فوجی عدالتوں کے قانون سے پاکستان کو محفوظ بنانے کی باتیں ہمیں بہلانے کے مترادف ہیں'۔

وقفے کے بعد قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ اتنے اہم اجلاس میں حکومتی وزراء کی عدم موجودگی باعث افسوس ہے۔

وزراء کی عدم موجودگی پر اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں شیم شیم کے نعرے بھی لگائے تاہم شاہد خاقان عباسی کے ایوان میں آنے پرنوید قمر نے فوجی عدالتوں کے قانون پر بحث شروع کردی۔

نوید قمر نے کہا کہ 'اگر فوجی عدالتیں ناکام ہوگئیں تو پھر کیا کریں گے، حکومت نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی وہ کب بنائی جائے گی؟

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتیں صرف نواز دور میں کیوں؟

اس پر وزیرقانون زاہد حامد نے جواب دیا کہ 'فوجی عدالتوں کے قانون کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی بنا دی جائے گی، اپوزیشن کے ساتھ جو بات طے کی گئی ہے اس کو پورا کیا جائے گا۔

اس موقع پر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا کہ 'اس کمیٹی کے قیام کی ذمہ داری میں لیتا ہوں'۔

پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 'کیا حکومت کو معلوم نہیں تھا کہ 2 سال کے بعد یہ عدالتیں ختم ہو جائیں گی، فوجی عدالتوں کا قوم پر دوبارہ مسلط ہونا حکومت کی کوتاہی کا منہ بولتا ثبوت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر حکومت نے قانونی اصلاحات کی ہوتیں تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، فوجی عدالتیں تنہا دہشت گردی کا سامنے کرنے میں مددگار نہیں ہوں گی، دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'پارلیمانی رہنماؤں کی کمیٹی کو تشویش تھی کہ فوجی عدالتیں سیاسی انتقام کے لئے استعمال نہ ہوں،جے یوآئی کو خدشہ تھا کہ ایک مذہبی طبقہ اس قانون کی زد میں نہ آجائے، متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ فوجی عدالتوں کا قانون آئین کا مستقل حصہ نہیں رہے گا'۔

شاہ محمود نے کہا کہ 'انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں سزاؤں کا تناسب بہت کم تھا جبکہ فوجی عدالتوں میں سزاؤں کا تناسب 99.6 فیصد تھا، اپوزیشن نہ چاہے تو حکومت آئین میں ترمیم کا بل منظور نہیں کراسکتی'۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی کی 9 تجاویز پیش

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرقانون زاہد حامد نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی پیش کردیا جس پر نوید قمر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ 'ہم نئی روایت قائم کررہے ہیں کہ ایک ساتھ دوبل پر بحث کرائی جائے'۔

اس پر وزیرقانون زاہد حامد نے کہا کہ 'ہوسکتا ہے آئین میں ترمیم کے بل سے پہلے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پاس کیا جائے'۔

جمہوری حکومت میں پھر کڑوا گھونٹ

بل پر بحث کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی شیخ صلاح الدین نے کہا کہ 'آج پهر ہم جمہوری حکومت میں کڑوا گھونٹ پینے جارہے ہیں، ملک کے استحکام کے لیے حکومت اور فوج کے ساتھ ہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'سیاسی انتقام کا تازہ ترین واقعہ فاروق ستار کے ساتھ پیش آیا ہے، ایوان کے ہر رکن کی ذمہ داری اسپیکر قومی پر ہوتی ہے لیکن فاروق ستار کے معاملے پر ایوان سے کوئی آواز نہیں اٹھی'۔

شیخ صلاح الدین نے یہ بھی کہا کہ 'پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوران ایسی باتیں بھی سنیں کہ ڈاکٹر عاصم اور شرجیل میمن کے معاملے پہ ڈیل ہوئی ہے، شرجیل میمن کی اچانک اسلام آباد واپسی سے لگتا ہے کہ 28 یوں ترمیم پر ڈیل ہوئی ہے'۔

اس موقع پر اسپیکر نے شیخ صلاح الدین کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں، ایسی بات کر کے ہم عدالت پہ بھی انگلی اٹھا رہے ہیں، اس طرح ڈیل کی باتوں سے معاملہ متنازع نہ بنائیں، اگر ایسا ہے تو ڈاکٹر فاروق ستار کی گرفتاری کو بھی ڈیل کہا جائے گا'۔

رکن اسمبلی صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ 'آئینی ترمیمی بل میں مذہب کو دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے، دہشت گردی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، اس حوالے سے ترمیم جمع کرائی ہے'۔

جمشید دستی نے کہا کہ 'پارلیمٹ ایک بڑا مقدس ایوان ہے، اگر یہ اپنا صحیح کردار ادا کرتی تو آج ہمیں ملٹری کورٹس کی ضرورت نہ پڑتی، ہم فوج کو مردم شماری سے لے کر سیکورٹی تک ہر جگہ استعمال کرتے ہیں'۔

بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس منگل کو شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا، منگل کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق آئینی ترمیم کے بل پر مزید بحث اور ووٹنگ کی جائے گی۔

خیال رہے کہ 16 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سال کی توسیع کے لیے ملک کی تمام پارلیمانی جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوگیا تھا۔

فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان ان کی دوبارہ بحالی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا۔

فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔

عدالتوں کا قیام 7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے بعد عمل میں لایا گیا، جن کی 2 سالہ مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔


تبصرے (0) بند ہیں