طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیکل کی اصطلاح میں لائیسوسومل اسٹوریج ڈس آرڈر (ایل ایس ڈی) کہلائی جانے والی جینیاتی بیماری سے نومولود بچے متاثر ہورہے ہیں اس لیے کزنز کے درمیان یا خاندان میں شادی کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

اس بیماری میں مبتلا بچوں کا اگر شروع میں ہی علاج نہ کروایا جائے تو وہ بمشکل 5 سال تک زندہ رہ سکتے ہیں، ایل ایس ڈی کے علاج سے بچوں میں اموات میں کمی لائی جاسکتی ہے لیکن یہ بہت مہنگا علاج ہے۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین نے لاہور میں چلڈرنز ہسپتال کے پیڈیاٹرک گیسٹرونٹرولوجی اینڈ ہیپاٹولوجی کے زیراہتمام ورکشاپ کے دوران کیا۔

ماہرین کے پینل میں میجر جنرل (ریٹائرڈ) ڈاکٹر سلمان علی، ڈاکٹر ہما ارشد چیمہ، پروفیسر طاہرشمسی، ڈاکٹر ہانی اکبر راؤ اور ڈاکٹر فرید الدین شامل تھے۔

مقررین کے پینل نے حکومت پر زور دیا کہ وہ ایل ایس ڈی کے حوالے سے پالیسی بناتے ہوئے ان مریضوں کے ساتھ تعاون کے لیے اقدامات کرے۔

پروفیسر ہما ارشد چیمہ نے کہا کہ ایل ایس ڈی کی وجہ خاص انزائمز میں خرابی ہے، جو جسم میں خراب مادوں کو توڑنے کے لیے درکار ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کی علامات میں ہڈیوں میں غیرمعمولی تبدیلیوں سمیت چھاتی کا انفیکشن، جگر اور تلی کا بڑھنا اور سینٹرل نروس سسٹم میں خرابی شامل ہے۔

ڈاکٹر ہما نے بتایا کہ 'بیماری کی شدت کی نوعیت مختلف ہوتی ہے لیکن علامات ایک سال کے اندر ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور معلومات کی کمی کے باعث مرض کی تشخیص میں اکثر تاخیر ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں متاثرہ بچہ چھوٹی عمر میں انتقال کرجاتا ہے'۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایل ایس ڈی میں مبتلا بچوں کے والدین اب حکومتی اور دیگر اداروں کے پاس مدد کے لیے پہنچ رہے ہیں تاکہ ان کے بچے مطلوبہ علاج کے بعد معمول کی زندگی گزار سکیں۔

ڈاکٹر ہانی اکبر راؤ نے ایل ایس ڈی پر حالیہ پیش رفت پر ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہرسال 250 سے زائد بچوں میں اس مرض کی تشخیص ہوتی ہے۔ اس سے قبل پاکستان میں ایل ایس ڈی کی تشخیص ایک امتحان تھا اور نمونوں کو امریکا، برطانیہ، جرمنی، آسٹریلیا اور ہندوستان بھیج دیا جاتا تھا، جن کی رپورٹ 3 سے 4 مہینوں میں موصول ہوجاتی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ 'اب کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان کے بڑے ہسپتالوں میں مفت ٹیسٹ کی سہولیات موجود ہیں'۔

ڈاکٹر ہما نے ایل ایس ڈی کے مریضوں کی صحیح تشخیص اور شروع میں ہی اسکریننگ کے لیے مزید سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت پر زور دیا۔

پروفیسر سلمان علی نے کہا کہ لوگوں میں آگاہی پر توجہ مرکوز کرنی چاہے، ایل ایس ڈی کے مریضوں کو ڈاکٹرز، حکومت، معاونین، این جی اوز، مریضوں کے اہل خانہ، دواؤں کی کمپنیوں اور مریضوں کے ساتھ تعاون کرنے والے گروہوں کی باہمی کوششوں کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'وقت کی ضرورت یہ ہے کہ حکومت کو ان مریضوں کے مفت علاج کے لیے ایک اسکیم پر کام کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت اس طرح کی بیماریاں چند اور قابل انتظام ہیں'۔

پروفیسر علی نے کہا کہ 'حکومت کو چاہیے کہ وہ متاثرہ بچوں کے علاج کے لیے خصوصی انزائمز کی دواؤں کی دستیابی کو یقینی بنائے، اس طرح وہ جتنا ممکن ہو معمول کی زندگی بسر کرسکتے ہیں اور ملک کے ذمہ دار شہری کی حیثیت سے اپنا حصہ ڈال سکیں گے'۔

پروفیسر فرید الدین نے کہا کہ زچگی کے دوران اس مرض کی تشخیص کے لیے مراکز قائم ہونے چاہئیں، اس طرح متاثرہ بچوں کی پیدائش کو کم کیا جاسکتا ہے۔

یہ خبر 27 مارچ 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں