انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ اللہ ڈنو خواجہ کے حوالے سے ان دنوں وفاق اور سندھ حکومت میں رسہ کشی کی سی صورتحال جاری ہے۔

سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانا چاہتی ہے لیکن اے ڈی خواجہ وفاق کے حکم کے بغیر عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں اور اب سندھ ہائی کورٹ بھی اس معاملے میں شامل ہوچکی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے اللہ ڈنو خواجہ کو عہدے سے ہٹانے کا سندھ حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا اور حکم جاری کیا کہ قائم مقام آئی جی عبدالمجید دستی فوری طور پر عہدہ چھوڑدیں اور اے ڈی خواجہ اپنے عہدے کا چارج دوبارہ سنبھال لیں۔

سندھ حکومت کو اے ڈی خواجہ سے مسئلہ کیا ہے؟

اے ڈی خواجہ حیدرآباد ڈویژن کے ایک چھوٹے سے قصبے ٹنڈو محمد خان میں تاجر گھرانے میں پیدا ہوئے اور ان کے والد کا نام عبدالعزیز خواجہ تھا تاہم اے ڈی خواجہ کی پروش ان کے والد کے ایک ہندو دوست نے کی۔

ابتدائی طور پر اے ڈی خواجہ کو دادو میں بطور آپریشنل پولیس افسر تعینات کیا گیا تھا اور وہاں انہوں نے نچلے ترین سطح پر پولیس کی جانب سے کی جانے والی کرپشن کو ختم کرنے کے لیے غیر معمولی طریقے اپنائے۔

وہ بھیس بدل کر دادو کی گلیوں میں نکلتے تھے، کبھی دودھ فروش کا بھیس بدلتے تھے اور کبھی کسی اور کا، اس دوران وہ ان پولیس اہلکاروں کی نشاندہی کرلیتے تھے جو ان سے رشوت کا تقاضہ کرتے تھے اور بعد میں ان کے خلاف کارروائی کی جاتی تھی۔

وقت کے ساتھ ساتھ اے ڈی خواجہ کی کی معتبریت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور انہوں نے اپنے کیریئر میں ترقی کے منازل طے کیے۔

مزید پڑھیں: آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کا نوٹیفکیشن معطل

اے ڈی خواجہ کو میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی تحقیقات کی ذمہ داری بھی سونپی گئی تھی جنہیں کراچی کے ضلع جنوبی میں ان کی پارٹی کے دفتر کے باہر قتل کردیا گیا تھا۔

2009 میں اس قت ڈی آئی جی کے عہدے پر فائز اے ڈی خواجہ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے مشتبہ پولیس اہلکاروں میں سے ایک پولیس افسر واجد درانی کوگرفتار کیا تھا جو قتل کے واقعے کے وقت سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ضلع جنوبی تھے۔

2014 کے اوائل میں اے ڈی خواجہ کو ڈی آئی جی موٹرویز تعینات کردیا گیا تھا۔

مارچ 2016 میں اے ڈی خواجہ نے آئی جی سندھ کا عہدہ سنبھالا، ان کی تعیناتی سابق آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے نتیجے میں عمل میں آئی تھی جنہیں پولیس فنڈز میں خرد برد کے الزامات پر نیب کی تحقیقات کا سامنا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کو جبری رخصت پر بھیجنا 'بلاجواز'

بطور آئی جی سندھ اپنے پہلے ہی اجلاس میں اے ڈی خواجہ نے کہا تھا کہ 'یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ہر سطح پر عوام دوست ماحول قائم کریں اور اس معاملے پر کسی کوتاہی و لاپروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا'۔

اے ڈی خواجہ کو پولیس کے انتظامی و مالیاتی امور میں بہتری کے لیے تعینات کیا گیا تھا جبکہ انہیں آپریشنل اور انویسٹی گیشن کے مراحل کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کا بھی ٹاسک دیا گیا تھا۔

تاہم ان کی تعیناتی کے چند روز بعد ہی سندھ پولیس کے بعض سینیئر افسران نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کردی اور انہیں واپس ان کے پرانے محکمے میں بھیجنے کی درخواست کردی۔

بطور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے پولیس کو غیر سیاسی کرنے اور برطانوی دور کے پولیس قوانین کو تبدیل کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے سرکاری افسران اور عام شہریوں پر مشتمل ایک بورڈ بھی تشکیل دیا جو فنڈز کے غلط استعمال کے معاملے کو دیکھتا ہے۔


تبصرے (1) بند ہیں

Hasan Apr 04, 2017 11:00am
پھر تو ظاہر سی بات ہے کہ ذرداری اور اس کی خاندانی غلام سندہ حکومت ایسے آدمی کو کیسے برداشت کرسکتی ہے۔ ان کو عاصم ، شرجیل عزیر بلوچ جمالی جیسے لوگ چاہئے۔ تعجب ہو تا ہے۔ ہمارے ملک اس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہو چکا ہے کہ ایک نام و نہاد صوبائی حکومت بانگ دہل اور صاف الفاظ میں یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ایک ایمان دار آدمی کے ساتھ نہیں چل سکتے ہمیں اپنے جیسا کوئی نا اہل بندہ چاہئے۔ چاہے عوام کو اسکی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ اب آئین قانون کی باتیں کر کے وقت ظایع نہیں کرنا چاہتا اب عوام کو مژاحمت کرنا ہوگا سچ اور میرٹ کا ستھ دینا پڑے گا ورنہ پھروہی حالات ہونگے یاد رکھے پھر روژ روز راحیل شریف نہیں آتے لیکن ذرداری نے بار بار آنا ہے اور ان کو تین سال بعد سعودی عرب یا امارات میں باشاہ کی نوکری کرنے چلا جانا ہے۔