واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے شام میں مبینہ کیمیائی حملے کو قابل مذمت اور ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اس کا الزام شامی صدر بشار الاسد پر عائد کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق پریس سیکریٹری سین اسپائسر نے کہا کہ مبینہ کیمیائی حملے کے بعد انتہائی تشویش میں مبتلا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کے سیکیورٹی ساتھیوں کی جانب سے اس حوالے سے بریفنگ دی گئی۔

گزشتہ روز شام کے صوبے ادلب میں باغیوں کے زیر قبضہ خان شیخون نامی شہر میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں متاثر ہوئے تھے۔

سین اسپائسر کا کہنا تھا کہ ’شام میں یہ کیمیائی حملہ خواتین و بچوں سمیت معصوم لوگوں کے خلاف کیا گیا جو انتہائی قابل مذمت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’امریکی انتظامیہ کو اس بات کا یقین ہے کہ اس حملے میں بشار الاسد ملوث ہیں، میں ابھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ امریکا کا اگلا قدم کیا ہوگا، لیکن ہم کوئی نہ کوئی اقدام ضرور اٹھائیں گے۔‘

شامی آرمی اور روس نے حملے میں ملوث ہونے کی دوٹوک الفاظ میں تردید کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شام: مہلک گیس حملے سے متعدد افراد ہلاک

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد امریکا کی جانب سے بشار الاسد پر تنقید میں کمی آئی ہے۔

رواں ہفتے کے اوائل میں سین اسپائسر نے اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکا، شام میں امن کے لیے بشار الاسد کو صدارت سے ہٹانے کو ضروری نہیں سمجھتا۔‘

تاہم برطانیہ اور فرانس میں یورپی اتحادیوں کے سفارتی دباؤ کے باعث امریکا کی جانب سے اس بار سخت بیان سامنے آیا ہے۔

سین اسپائسر کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک سیاسی حقیقت ہے کہ بشار الاسد اس وقت اقتدار میں ہیں اور حکومت کی تبدیلی کا کوئی بنیادی آپشن موجود نہیں، تاہم شامی عوام کے حق میں یہی بہتر ہے کہ بشار الاسد اقتدار میں نہ رہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی حکومت اپنے ہی لوگوں پر کیمائی ہتھیار استعمال کرے تو ایسی صورتحال میں کوئی بھی مہذب قوم خاموش نہیں رہ سکتی، جبکہ میرے خیال میں یہی بہتر ہے کہ شامی عوام ایسے شخص سے چھٹکارا حاصل کریں۔‘

دوسری جانب خان شیخون میں کیمائی حملے کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا بدھ کو اجلاس ہوگا۔

فروری میں روس نے پچھلے کیمیائی حملوں میں مبینہ طور پر ملوث شامی اہلکاروں پر پابندی کو ویٹو کردیا تھا۔

لیکن اس بار ٹرمپ انتظامیہ اور روسی حکومت اس معاملے پر ایک دوسرے کے آمنے سامنے نظر آتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں