کراچی: وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے بنایا گیا 41 ملکی اسلامی فوجی اتحاد یمن میں جاری کشیدہ صورتحال میں مداخلت نہیں کرے گا۔

خیال رہے کہ اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کریں گے، جس پر حال ہی میں ایرانی سفیر نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایرانی تشویش کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سابق آرمی چیف کی بطور اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ تقرری کے معاملے پر پاکستان اپنے ہمسایہ ملک کے تحفظات دور کرنے کو تیار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے سعودی عرب کے سرکاری دورے کے موقع پر سعودی حکام نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ جنرل راحیل شریف کو اس اتحاد کا سربراہ مقرر کرنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسلامی فوجی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہيں، تہمینہ جنجوعہ

خواجہ آصف نے کہا کہ ’جب جنرل راحیل شریف عمرہ کے لیے سعودی عرب پہنچے تو سعودی حکام نے ان سے ذاتی طور پر رابطہ کیا، اب وہ فوجی اتحاد کا حصہ ہیں اور وہ ان سے تنخواہ لیں گے، تاہم میں یہ واضح کردوں کہ نہ ہی یہ اتحاد اور نہ ہی پاکستان یمن کی صورتحال میں مداخلت کرے گا‘۔

پاکستان اور سعودی عرب کے تاریخی تعلقات کو دہراتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے ہمیشہ اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

وزیر دفاع کے مطابق ’ہمارے 12 سو فوجی سعودی عرب میں موجود ہیں، ہم ان کی فوج اور اہلکاروں کو تربیت فراہم کرتے ہیں، ہمارے سعودی عرب سے کئی دہائیوں پر محیط مضبوط تعلقات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر ایران کو جنرل راحیل شریف کی تقرری پر تحفظات ہیں تو ہم ایران سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں‘۔

مزید پڑھیں: 'دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 34 اسلامی ریاستیں متحد‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ دیگر کئی ممالک کی طرح عرب ریاستوں کے دفاع میں شمولیت اختیار کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔

جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور موجودہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تقرری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کئی ارکان سابق آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کے حق میں تھے، تاہم نواز شریف اس کی حمایت میں نہیں تھے۔

وزیر دفاع کے مطابق ’نواز شریف کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیئے، وہ اداروں کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں اور مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے‘۔

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقات کے ایجنڈے سے واقف نہیں۔

انہوں نے کہا ’لیکن مجھے یہ معلوم ہے کہ عمران خان نے کافی عرصے سے آرمی چیف سے ملنے کی درخواست بھیج رکھی تھی، ہمارے پاس اس نوعیت کی ملاقاتوں کا ریکارڈ رکھنے کی روایت نہیں ملتی لیکن میرے خیال سے اس طرح کی ملاقاتوں کے ریکارڈ رکھنے کا ایک نظام ہونا چاہیئے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں