واشنگٹن: شام میں ہونے والے کیمیائی حملے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ ’خطرناک حدیں پار کررہے ہیں‘۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ حالیہ حملے نے شام اور بشارالاسد سے متعلق ان کا رویہ تبدیل کردیا ہے تاہم انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ حالیہ کیمیائی حملے کے بعد ان کا ردعمل کیا ہوگا۔

وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ادلب میں ہونے والے کیمیائی حملے میں 70 کے قریب افراد ہلاک ہوئے جن میں سے اکثریت بچوں کی تھی اور ایسا ہونا ’تمام حدود کی پامالی ہے‘۔

امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ انہیں حملے کی تفصیلات نے بہت متاثر کیا ’گذشتہ روز شام کے معصوم لوگوں کے خلاف کیا جانے والا حملہ انتہائی خطرناک تھا، جس میں خواتین اور انتہائی معصوم چھوٹے بچے مارے گئے، ان کی ہلاکت انسانیت کی توہین ہے‘۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’بشارالاسد کی حکومت کے ہولناک اقدامات کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور دنیا بھر میں ہونے والے ایسے حملوں کی مذمت کرتا رہے گا‘۔

یہ بھی پڑھیں: کیمیائی حملہ: امریکا کا بشارالاسد پر ملوث ہونے کا الزام

ان کا مزید کہنا تھا کہ شام کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور وہ اس ذمہ داری کو ضرور پورا کریں گے۔

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد امریکا کی جانب سے بشار الاسد پر تنقید میں کمی آئی تھی۔

رواں ہفتے کے اوائل میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان سین اسپائسر نے اشارہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’امریکا، شام میں امن کے لیے بشار الاسد کو صدارت سے ہٹانے کو ضروری نہیں سمجھتا۔‘

تاہم برطانیہ اور فرانس میں یورپی اتحادیوں کے سفارتی دباؤ کے باعث امریکا کی جانب سے اس بار سخت بیان سامنے آیا ہے۔

واضح رہے کہ دو روز قبل شام کے شمال مغربی حصے میں واقع باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے میں جنگی جہازوں کے ذریعے کیے گئے مبینہ مہلک گیس حملے میں متعدد بچوں سمیت 70 کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: شام: مہلک گیس حملے سے متعدد افراد ہلاک

انسانی حقوق کی شامی مبصر تنظیم کے مطابق شام کے صوبے ادلب میں خان شیخون نامی شہر میں ہلاک ہونے والے افراد کسی مہلک گیس سے متاثر ہوئے تھے۔

واضح رہے کہ ادلب کا بڑا حصہ اتحادی باغیوں کے قبضے میں ہے، جن میں القاعدہ سے منسلک فتح الشام فرنٹ بھی شامل ہے۔

ان باغیوں کو شامی حکومت کے ساتھ ساتھ روسی جنگی جہاز بھی اکثرو بیشتر نشانہ بناتے ہیں، علاوہ ازیں داعش کے عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں مصروف امریکی اتحادی افواج بھی یہاں حملہ کرچکی ہیں۔

شامی حکومت نے 2013 میں باقاعدہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن میں شمولیت حاصل کرکے ان ہتھیاروں کو ختم کردیا تھا تاہم اس کے بعد بھی بشار الاسد کی حکومت پر کیمیائی ہتھیاروں کے الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔

اقوام متحدہ کی تحقیقات میں شامی حکومت پر 2014 اور 2015 میں 3 کلورین گیس حملوں کے الزامات عائد کیے جاچکے ہیں۔

دوسری جانب شامی حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے، جس کا کہنا ہے کہ ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال باغیوں کی جانب سے کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں