قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی نے قصور اور سوات میں جنسی استحصال اور ویڈیوزبنانے کے واقعات کے بعد پیش ہونے والے ترمیمی بل 'کریمنل لا بل 2016' کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بل پیش کرنے والی رکن قومی اسمبلی مسرت احمد زیب کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے موجودہ سزا جرم کی نوعیت کے مطابق نہیں ہے اسی لیے نابالغوں اور بچوں کے جنسی استحصال پر بڑی سزا کی تجویز دی گئی تھی۔

کمیٹی کے اجلاس میں ان کا کہنا تھا کہ مجرم کو سزائے موت یا عمر قید کی سزا ہونی چاہیے۔

مسرت احمد زیب نے کہا کہ 'لوگ اس جرم کو کرنے سے نہیں گھبراتے کیونکہ اس کی سزا سات سال سے زیادہ نہیں ہے، ریپ کیسز پر سزائے موت یا عمر قید ہونی چاہیے اور یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ بچوں کا جنسی استحصال کاروبار بن چکا ہے جس میں مافیاز ملوث ہیں'۔

وزارت قانون کے ایک رکن نے بتایا کہ مجرمان کو عام طورپر پانچ یا سات سال قید کی سزا دی جاتی ہے جو جرم کے لحاظ سے نرم ہے۔

کمیٹی کے کنوینر نعیمہ کشور خان کا کہنا تھا کہ بل اس لیے منظور نہیں ہوگا کیونکہ جرم پر سزا کا قانون موجود ہے اور 'یہ ریپ نہیں ہے'۔

مسرت زیب نے بل پاس نہ ہونے پر پارلیمنٹ لارجز سے واک آؤٹ کیا۔

بعدازاں ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پارلیمان میں بیٹھے ہوئے اراکین ملک کے لوگوں کے مفادات کے بجائے اپنی متعلقہ پارٹیوں کے مفادات کو بچاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بچوں کا جسنی استحصال اور اس کی ویڈیوبنانے کا عمل قصور میں شروع ہوا تھا جہاں 100 سے زیادہ کیس سامنے آئے تھے اور سوات میں 50 سے زیادہ کیسز سامنے آئے تھے'۔

مسرت زیب نے کہا کہ 'اس جرم میں مافیا ملوث ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ کمیٹی کی کنوینر میرا نقطہ نظر سننے اور معاملے کی حساسیت کو سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ 'اس سنگین جرم پر سزا کے لیے میں دوسرے پہلووں سے کوشش کروں گی'۔

مسرت زیب کا کہنا تھا کہ 'ہر گھر میں بچے موجود ہیں اور کسی بھی وقت نشانہ بن سکتے ہیں اسی لیے میری تجویز ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال کی سزا کو بڑھائی جائے'۔

زیرحراست افراد کے حقوق کابل بھی مسترد

کمیٹی نے گرفتاری کے بعد وکیل سے مشاورت کی اجازت دیے جانے کے لیے پیش کیا گیا بل بھی مسترد کردیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کی رکن ڈاکٹرنکہت شکیل خان نے اس بل کو پیش کیا تھا لیکن اس کے دفاع کے لیے لگاتار چوتھے سیشن میں بھی شامل نہیں ہوئیں۔

'کوڈ آف کریمنل پروسیجر بل 2016' کے نام سے ترمیم کے لیے پیش کیے گئے بل میں گرفتار کیے جانے والے شخص کو گرفتاری کے وقت وجوہات سے آگاہ کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی تھی۔

بل کے مندرجات میں تجویز کیا گیا تھا کہ تفتیش کے آغاز سے قبل پولیس افسر کو چاہیے کہ وہ مشتبہ شخص کو اپنے اہل خانہ کو اس حوالے آگاہ کرنے اور اپنی مرضی کے وکیل سے مشورہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔

نعیمہ کشور خان کا کہنا تھا کہ اس بل کو مسترد کردیا گیا ہے اور اس کو پیش کرنے والی رکن نے مسلسل چار اجلاس میں آنے کی زحمت نہیں کی۔

یہ خبر 8اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

سخن حق Apr 08, 2017 02:59pm
اراکین کی ذہنی سطح کا اظہار ہوتا ہے