آصف زرداری کے لاپتہ ساتھیوں کی بازیابی کیلئے 'حکومتی اقدامات'

13 اپريل 2017
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: اے پی پی
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صوبائی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے ہیں — فوٹو: اے پی پی

کراچی: سندھ اسمبلی میں سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھیوں کی گمشدگیوں کی باز گشت اس وقت سنائی دی جب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے وفاقی اداروں کو ان کا آئینی دائرہ کار یاد دلایا کہ کسی بھی شخص کی گرفتاری کے بعد اسے 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کی گمشدگی کا معاملہ صوبائی وزیر امداد پتافی نے سندھ اسمبلی میں پوائنٹ آف آرڈر پر اٹھایا تھا۔

صوبائی اسمبلی کا یہ اجلاس اسپیکر آغا سراج درانی کی ہدایت پر بلایا گیا تھا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے پی پی پی کے دو سینئر کارکنوں کی گمشدگی کا ذمہ دار وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کو ٹھہرایا۔

اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ سندھ نے اس معاملے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے شخص کو لاپتہ کرنے کے خلاف ہے۔

انھوں نے کہا کہ سندھ حکومت اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھے گی اور ان لاپتہ افراد کی بازیابی تک ہر ممکن اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سمیت صوبائی اسمبلی میں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے پی پی پی کے ساتھ ہمدردی اور حمایت پر اظہار تشکر کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ وہ مذکورہ مسائلے پر ایوان کی تشویش سے آگاہ ہیں۔

انھوں نے دونوں واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ریاست مخالف سرگرمیوں یا دہشت گردی میں ملوث ہے تو اسے گرفتاری کے بعد عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔

انھوں نے بتایا کہ اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کو سپر ہائی وے پر گڈاپ ٹاؤن اور جامشورو کے قریب سے 3 اور 7 اپریل کو اغوا کیا گیا۔

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ان کے اغوا کے فوری بعد پولیس حرکت آئی اور ان کے فون کالز کا ریکارڈ جانچ کیا گیا لیکن انھیں اپنے ہمراہ لے جانے والے افراد سے متعلق کوئی اشارہ نہ مل سکا۔

انھوں نے کہا کہ 'ہمارے پاس محدود ذرائع ہیں اور ہمیں لوگوں کو تلاش کرنے کیلئے دیگر ایجنسیز سے مدد لینا پڑتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں واقعات کسی بھی صورت میں اغوا برائے تاوان کہ نہیں ہیں۔

مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر نوڈیرو میں غلام قادر مری سے ملاقات کی تھی، 'دو ویگو گاڑیوں میں موجود کچھ افراد، جن کے ہاتھوں میں واکی ٹاکیز بھی تھے' نے انھیں جامشورو پل کے قریب روکا اور ساتھ لے گئے۔

وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ غلام قادر مری سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی اور زمیندار ہیں۔

انھوں نے صوبائی اسمبلی کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی جاچکی ہے اگر وہ کسی ایجنسی کے پاس ہیں تو انھیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے اور اداروں کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔

انھوں نے مزید کہا کہ اگر انھیں وفاقی ایجنسیز اپنے ساتھ لے گئیں ہیں تو آئین ان ایجنسیز کو پابند کرتا ہے کہ وہ ملزم کو گرفتاری کے 24 گھنٹوں میں عدالت میں پیش کریں۔

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اگست 2016 کو لگائے گئے بھوک ہڑتالی کیمپ ایم کیو ایم سے اظہار یکجہتی کیلئے پی پی پی نے ایک وفد بھیجا تھا۔

انھوں نے کہا کہ 'آج ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسملبی اپنے لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ میں انھیں یقین دلاتا ہوں کہ جلد ایک اجلاس طلب کیا جائے گا اور ہم قانون کے مطابق چلیں گے کیونکہ ہم سیاسی کارکنوں کی گمشدگیوں کے خلاف ہیں'۔

انھوں نے کہا کہ قانون سازوں کی لاپتہ کیے جانے والے کارکنوں پر تشویش جائز ہے۔

ان کے جذبات کو سراہاتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ آصف علی زرداری کے ساتھیوں کی بازیابی کیلئے ہر ممکنہ کوششیں برائے کار لائی جائیں گی چاہے انھیں کوئی بھی ایجنسی اپنے ہمراہ لے گئی ہو۔

اس سے قبل ایم کیو ایم کے فیصل سبزواری نے کہا تھا کہ 'ایم کیو ایم سے زیادہ سیاسی کارکنوں کی گمشدگیوں کے درد اور تشویش کو کون سمجھ سکتا ہے' جن کے 'ہزاروں کارکن کئی سالوں سے لاپتہ ہیں'۔

انھوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس معاملے کو متعدد مرتبہ ایوان کے علم میں لانے پر بھی کسی نے کبھی کوئی توجہ نہیں دی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کسی کیس میں ملزم یا مطلوب ہے تو اسے عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے، ہماری تمام ہمدردیاں مذکورہ واقعے کے متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں'۔

ایم کیو ایم کے ڈاکٹر ظفر کمالی کا کہنا تھا کہ 'اس سے قبل گرم ہوائیں ہماری جانب چل رہیں تھی لیکن اب ان کا رخ پی پی پی کی جانب ہے، لیکن ہم ان کے دکھ کو برابر بانٹتے ہیں جیسا کہ کسی بھی جماعت کے کارکن کو لاپتہ نہیں کیا جانا چاہیے'۔

اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر شیلا رضا نے کہا کہ وزیراعظم اور ان کی کابینہ پاناما کیس کے فیصلے سے قبل 90 کی دہائی کی سیاست کو دہرا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کو ماضی میں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا اور اب ان کے ساتھیوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن پی پی پی کی قیادت ان حربوں سے ڈرنے والی نہیں۔

پی پی پی کی خیرنساء مغل کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نواز جب بھی اقتدار میں آتی ہے ہمیشہ ایسے ہی حربے استعمال کرتی ہے۔

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے محتاب اکبر راشدی کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ حکمران جماعت شکایت کررہی ہے۔

صوبائی وزیر جام خان شورو کا کہنا تھا کہ یہ حربے پی پی پی کو خاموش کرنے کیلئے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

یہ رپورٹ 13 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (1) بند ہیں

ali Apr 13, 2017 12:34pm
do PPP really think Nisar ali Khan is behind this?? why they don't name the real people who is behind this?? well Ghulam Qadir mari is not a holy person at all but such forceful abduction is highly condemnable, no one with any crime must be abducted,