کراچی: وزارت صحت سندھ کے حکام کا کہنا ہے کہ نگلیریا فاؤلری، جسے عام طور پر 'دماغ خور' امیبا کے نام سے جانا جاتا ہے کے باعث صوبے میں سال کی پہلی موت واقع ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 23 سالہ عاصم حسین کراچی کے ایک نجی ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں ہلاک ہوا، جہاں اسے بدھ کے روز بخار اور خراب دماغی حالت کی وجہ سے لایا گیا تھا۔

صوبائی وزارت صحت کے سینئر افسر ڈاکٹر سید ظفر مہدی نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہمیں آج نگلیریا کی وجہ سے سال کی پہلی ہلاکت کی تصدیق ہوئی ہے'۔

مزید پڑھیں: کراچی میں نگلیریا سے 22 سالہ لڑکی ہلاک

ہلاک ہونے والے شخص کا تعلق ضلع ٹنڈو اللہ یار کے گاؤں حاجی اسماعیل مگسی سے تھا، یہ بتایا جاتا ہے کہ ہلاک ہونے والا نوجوان اکثر اپنے علاقے میں قائم ایک طالاب میں تیراکی کیلئے جایا کرتا تھا۔

ابتدا میں اسے شدید بخار تھا جبکہ اس میں وہ تمام علامات موجود تھیں جن کی بعد ازاں تصدیق کی گئی کہ وہ نگلیریا سے متاثر ہے، خیال رہے کہ اس سے متاثرہ افراد 99.9 فیصد کیسز میں بچ نہیں پاتے۔

پانی کے نمونے حاصل کرنے کیلئے ٹیم روانہ

ڈائریکٹر جنرل آف ہیلتھ ڈاکٹر محمد توفیق کا کہنا تھا کہ ایک نگرانی کی ٹیم کو ضلع ٹنڈو اللہ یار روانہ کردیا گیا ہے تاکہ وہ اس مقام سے تمام تفصیلات حاصل کریں اور طالاب سے پانی کے نمونے بھی حاصل کے جائیں۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ مذکورہ بیکٹیریا 36 ڈگری سیٹی گریڈ یا اس سے کم درجہ حرارت پر غیر مؤثر ہوتا ہے تاہم اگر درجہ حرارت اس سے بڑھ جائے تو مہلک بیکٹیریا دوبارہ فعال ہوجاتے ہیں۔

گذشتہ سال ایک سرکاری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں جہاں کلورین کے بغیر پانی سپلائی کیا جاتا ہے اور سندھ کے دیگر صوبوں میں صورت حال انتہائی خراب ہے۔

پانی میں کلورین شامل کرنے سے مذکورہ بیکٹیریا ہلاک اور اس سے انسانی زندگیوں کو لاحق خطرات کم ہوجاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’دماغ کھانے والے‘نگلیریا سے ایک اور شہری ہلاک

گذشتہ سال نگلیریا پر ریسرچ کرنے والی ایک کمیٹی نے پانی کے نمونے حاصل کیے تھے اور ان کے نتائج کے مطابق شہر میں فراہم کیے جانے والے پانی میں متعلقہ مقدار سے کم کلورین استعمال کیا جارہا تھا۔

ٹیم نے کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ (کے ڈبلیو ایس بی) کے 90 فیصد سے زائد پمپنگ اسٹیشنز پر کلورینیشن ہوتے ہوئے نہیں دیکھی جو شہر کے لاکھوں لوگوں کی جان کیلئے ایک خطرہ تھا۔

دماغ خور امیبا نے گذشتہ سال 3 لوگوں کی جان لی تھی جبکہ اس سے قبل 4 سال میں اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 42 تھی۔

اس بیکٹیریا سے ہونے والی ہلاکتوں نے حکام کے ان دعووں کی قلی کھول دی تھی جس میں کہا جارہا تھا کہ مذکورہ بیکٹیریا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے مؤثر اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق امیبا گرم پانی میں زندہ رہتا ہے اور انسانی کی سانس کی نالی کے ذریعے دماغ میں پہنچ کر اس کے ٹشوز کو کھاتا ہے تاہم پانی میں مؤثر کلورین کے استعمال سے ہی اس سے بچا جاسکتا ہے۔

یہ بیکٹیریا کسی بھی صحت مند شخص کو بیمار کرسکتا ہے، اس سے متاثر ہونے کے 3 سے 7 روز میں سر میں درد اور معمولی سا بخار محسوس ہوتا ہے جبکہ کچھ کیسز میں گلے اور ناک کی سوزش جیسی علامات میں ظاہر ہوتی ہیں۔

یہ رپورٹ 15 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں