اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر رشید اے رضوی نے 23 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کو دوبارہ بحال کیے جانے کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ 'یہ ترمیم پاکستانی شہریوں کو آئین کے باب 'ایک' کے 'دوسرے' حصے کے مطابق حاصل ہونے والے حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس لیے برائے مہربانی یہ اعلان کیا جائے کہ مذکورہ ترمیم مزید آئین کا حصہ نہیں رہے گی'۔

پٹیشن دائر کرنے کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ہفتے کے روز سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا اجلاس طلب کیا ہے اور کچھ ہی روز میں ایک درخواست کے ذریعے عدالت سے یہ التجا کی جائے گی کہ اس کی جلد سماعت کی جائے'۔

گذشتہ ماہ سابق چیف جسٹس امیر ہانی مسلم کے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس میں ایس سی بی اے کے صدر نے کہا تھا کہ 'فوجی انصاف اصل میں انصاف کی تردید ہےاور فوجی عدالتیں کبھی بھی اس بات کا جواب نہیں ہوسکتیں کہ یہ دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے ہیں'۔

خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کے دو سالہ قیام کیلئے آئین میں 21 ویں ترمیم کی گئی تھی تاہم اسے چیلنج کردیا گیا تھا، تاہم سپریم کورٹ کے فل بینچ کے 11 میں سے 6 اراکین نے 5 اگست 2015 کو فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دے دی تھی۔

2015 کے فیصلے کے حوالے سے پٹیشن میں زور دیا گیا ہے کہ 23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان عدالتوں کے قیام میں مزید توسیع ایک عارضی اقدام کو مستقل اجازت دینے کے مترادف ہے۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ 23 ویں ترمیم ایک ناکام تجربہ ہے، مستثنیٰ ہونے کے باعث، اگر اسے دوسری مرتبہ بھی دہرایا گیا تو اسے قانون کے کردار پر فرض کیا جائے گا۔

پٹیشن میں سال 2000 کے ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ بھی دیا گیا، جس میں آئین کی نمایاں خصوصیات کی نشاندہی کی گئی تھی، جس میں عدلیہ کی خود مختاری، وفاقیت، اسلامی اصولوں کے مطابق پارلیمانی حکومت اور مزید بتایا گیا تھا کہ نمایاں خصوصیات پارلیمنٹ کے ترمیم کے اختیار میں نہیں آتیں۔

پٹیشن میں مزید نشاندہی کی گئی کہ 'اس لیے آئین میں کی جانے والی ایسی کوئی ترمیم جو عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہو پارلیمنٹ اس میں تبدیلی کی اہل نہیں'۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ آئین کا بنیادی مقصد عوام اور ریاست کے درمیان رابطے کا کام کرنا ہے، جو آئین کے بانیان کی جانب سے تسلیم کیا گیا ہے، جسے ہمیشہ تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے۔

اس میں زور دیا گیا کہ عدلیہ بحیثیت آئین کے ترجمان کے پارلیمنٹ کی اکثریت سے آئین کی اہم بنیادوں کو محفوظ کرنے کی ذمہ دار ہے۔

آئین نے کسی ابہام کے بغیر ایک ریاست کے تنیوں ستونوں کی نشاندہی کی ہے جس میں مقننہ، ایگزیکٹو اور عدلیہ شامل ہے، اور ان کی حدود اور افعال بھی واضح کیے گئے ہیں۔

اس لیے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کے اختیارات مقننہ کو حاصل نہیں ہیں اور اس لیے 23ویں آئینی ترمیم آئین کے مستقبل اور بنیادی ڈھانچے کے اصولوں کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتی'۔

پٹیشن میں رشید اے رضوی کا مزید کہنا تھا کہ خصوصی فوجی عدالتوں میں شہریوں کا ٹرائل کرنے کا خیال حیران کن اور مضحکہ خیز ہے، اور دراصل یہ عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت ہے اور اسے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

پٹشنر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن آئین میں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کے اختیارات سے اچھی طرح واقف ہے، اب بھی، یہ ناقابل تردید حقیقت ہے اور عدالت عظمیٰ کی جانب سے مستقل اس بات کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ پارلیمنٹ کے آئین میں ترمیم کے اختیارات نہ تو لامحدود ہیں اور نہ ہی بےلگام، اس لیے وہ آئین میں ایسی کوئی ترمیم منظور نہیں کرسکتی جو شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہو۔

پٹیشن میں قانون اور دفاع کے سیکریٹریز کے ذریعے وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔

یہ رپورٹ 15 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں