مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبا کے تشدد سے ہلاک ہونے والے طالبعلم مشعال خان کے والد اقبال جان نے کہا ہے کہ ان کا بیٹا بہت ہی صابر شخصیت کا مالک تھا، جیسے کتابوں اور قلم سے لگاؤ تھا۔

ڈان نیوز کے پروگرام '2 رائے' میں گفتگو کرتے ہوئے اقبال جان کا کہنا تھا کہ مشعال ایک بہت ہی اچھا طالبِ علم تھا اور وہ پورے دن میں 16 گھنٹے اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو دیتا تھا،کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ تعلیم ہی وہ واحد چیز ہے جو انسان کو غلط راستوں پر جانے سے روک سکتی ہے۔

مشعال کے والد نے بتایا کہ ان کے بیٹے کا تعلیم سے لگاؤ اس قدر تھا کہ وہ اس کے لیے روس بھی گیا، جبکہ وہاں سے آکر اُس نے صحافت کے شعبے کو اختیار کیا۔

انھوں نے کہا کہ میرے بیٹے پر جو الزام عائد کیا گیا وہ 100 فیصد غلط ہے، کیونکہ وہ ایسا شخص تھا جو نظام پر بات کرتے ہوئے پیغمبر ﷺ اور حضرت عمر ؓ کا حوالے دیا کرتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ مشعال کو ادب اور شاعری سے بھی کافی لگاؤ تھا جبکہ وہ ایک امن پسند انسان تھا جس نے کبھی کسی کیلئے برا نہیں سوچا۔

اقبال جان نے کہا کہ میرے بیٹے کو بہت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا، لیکن وہ ہمیشہ زندہ رہے گا، کیونکہ وہ سچائی کا علم بردار تھا اور ہمیشہ انسانیت کی بات کیا کرتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو کھیل اس کی یونیورسٹی میں کھیلا گیا اور اس پر الزام عائد کیا گیا وہ خود بھی اس بارے میں پہلے سے نہیں جانتا تھا، کیونکہ آج تک اس نے ایسے کسی مسئلے کا مجھ سے تذکرہ نہیں کیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اگر اس نے کسی جگہ پر کسی چیز کو درست کرنے کی بات کی تو وہ کوئی گناہ نہیں ، کیونکہ اس کا حق ہر ایک کو ہوتا ہے۔

اقبال جان نے کہا کہ وہ ہمیشہ انسانیت اور اپنے ملک کیلئے کام کرنا چاہتا تھا اور جب سے وہ روس سے آیا تھا اُس نے یہی ارادہ کررکھا تھا۔

اس سوال پر کہ کیا اس واقعہ کے بعد سے علاقے میں آپ کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا ہے ؟ تو ان کا کہناتھا کہ ابھی تک تو کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا، کیونکہ یہاں سول سوسائٹی اور سیاستدان بھی آرہے ہیں جو اس واقعہ کے خلاف مظاہرے بھی کررہے ہیں۔

تاہم، اقبال جان نے کہا کہ یہ ہمارے معاشرے کا وہ مسئلہ ہے جس کو مذمت یا مظاہروں سے حل نہیں کیا جاسکتا، لہذا حکومت اورسول سوسائٹی مل کر کچھ ایسے اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں کسی اور طالب علم کے ساتھ ایسا نہ ہوسکے۔

انھوں نے اپنے بیٹے کی قتل پر جوڈیشل انکوائری کرنے اور سپریم کورٹ کی جانب سے نوٹس لینے کو خوش آئند قرار دیا، لیکن ساتھ ہی حکومت پر زور دیا کہ وہ کچھ ایسا کرے تاکہ انہیں انصاف مل سکے۔

اقبال جان نے کہا کہ 'اگرچہ میرا مشعال اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے، لیکن میں اسی لیے دل برداشتہ نہیں ہوں، کیونکہ میرے ملک کے ہر گھر میں ایک مشعال موجود ہے اور ہمیں اس معاشرے سے اس طرح کے واقعات کو ختم کرکے پیار و محبت کی فضا پیدا کرنی ہے'۔

'انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے نصاب سے زہر نکالنا ہوگا'

جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ موجودہ حالات میں معاشرے میں پھیلی اس عدم برادشت اور انتہا پسند سوچ کا ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں تو مشعال خان کے والد نے کہا کہ یہ مسئلہ جنرل ضیاءالحق کے زمانے سے چلتا آرہا ہے، لہذا ہمیں اس کے لیے نصاب میں سے اُس زہر کو نکال پھینکنا ہوگا جو لوگوں میں نفرت پیدا کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس

واضح رہے کہ دو روز قبل عبدالولی خان یونیورسٹی میں طلبہ کے گروہ کے تشدد سے ایک 23 سالہ طالب علم کی موت ہوگئی تھی جبکہ ایک طالب علم زخمی ہوا۔

ڈی آئی جی مردان عالم شنواری کے مطابق ہلاک ہونے والے طالب علم پر الزام تھا کہ اس نے فیس بک پر ایک پیج بنا رکھا تھا، جہاں وہ توہین آمیز پوسٹس شیئر کیا کرتا تھا۔

واقعے کے بعد یونیورسٹی سے متصل ہاسٹلز کو خالی کرالیا گیا جبکہ یونیورسٹی کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کردیا گیا۔

وزیراعظم نواز شریف نے طالبعلم کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی میں بے حس ہجوم کی طرف سے طالبعلم کے قتل پر بے حد دکھ ہوا۔

دوسری طرف مشعال کی بہن کا ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے بھائی پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں اور مشعال کا کسی سے کوئی ذاتی مسئلہ نہیں تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں