کراچی: بلوچستان کے ضلع لسبیلہ میں واقع ایک ساحلی گاؤں کے رہائشیوں نے حکومت سے اپنی زمین کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کرنے اور سمندری آفت سے ہونے والے اپنے نقصانات کی ادائیگی کا مطالبہ کر دیا۔

بلوچستان کی ساحلی پٹی کے ایک گاؤں سونمیانی کے علاقے ڈمب میں رواں ماہ 16 اپریل کی صبح سمندری لہروں نے زبردست تباہی مچائی جس کے نتیجے میں علاقے کا 43 ہزار مربع فٹ (تقریباً 2 ایکڑ) کا رقبہ سمندر نے نگل لیا۔

سونمیانی ترقیاتی تنظیم کے ماسٹر عبدالرشید نے علاقے میں ہونے والی تباہی کے بارے میں بتایا، 'صبح کے وقت ہم نے بہت بڑی سمندری لہروں کو ساحل سے ٹکراتے دیکھا جس کے باعث ساحل پر زمینی کٹاؤ شروع ہوگیا اور نتیجتاً زمین کے بڑے ٹکڑے میانی ہور لگون میں موجود ڈمب کے شمال مغربی حصہ سے الگ ہو کر گرنے لگے'، انھوں نے مزید بتایا کہ 'تقریباً دوسو گھر، مکانات اور دکانیں اس تباہی کی نذر ہوچکی ہیں'۔

مزید پڑھیں: انڈس ڈیلٹا کی آب گاہوں کا نوحہ

مقامی برادری کے ماتحت چلائی جانے والی ایک این جی او کے سربراہ اور گاؤں کے نمائندے محمد انور نے بتایا کہ لوگ اب بھی 16 اپریل کو ہونے والی تباہی کے بعد بحالی کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ لوگوں نے اپنے گھروں، دکانوں اور ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتیوں کو چند گھنٹوں میں اپنے سامنے سمندر میں ڈوبتے دیکھا ہے۔

انہوں نے حکوت سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے زیادہ ستم طریفی اور کیا ہوگی کہ حکومت اس تباہی کے بعد اب تک خاموش ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سمندر کی وجہ سے ہونے والا زمینی کٹاؤ یہاں کے رہائشیوں کے لیے روز کا معمول ہے، لیکن پچھلے کچھ برسوں میں اس کٹاؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے آج سے پہلے اتنی شدید لہریں کبھی نہیں دیکھی تھیں۔

گاؤں سے متصل جیٹی کی تعمیر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک دہائی قبل بنائے جانے والی اس ناقص جیٹی کی وجہ سے ساحلی کٹاؤ کے خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جزیرہ استولہ: پاکستان کا ایک خفیہ گوہر

ماسٹر عبد الرشید نے بتایا کہ اس مسلسل ساحلی کٹاؤ سے اب تک ساحلی مارکیٹ کا بڑا حصہ سمندر برد ہو چکا ہے، اس کے علاوہ اس کٹاؤ سے پاکستان کوسٹ گارڈ آفس اور سی فوڈ پروسیسنگ پلانٹ کو بھی نقصان پہنچا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سانحہ کے بعد ماہی گیروں کو اپنی کشتیوں کو لنگرانداز کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

دوسری جانب محمد انور کا کہنا تھا کہ کسی بھی سرکاری عہدیدار بشمول صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، ڈپٹی کمشنر اور ساحلی ترقیاتی اتھارٹی کی جانب سے کسی بھی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں آسکی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اے نے ہمیں یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ساحلی کٹاؤ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ہے۔

تاہم کراچی میں موجود نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اوشینوگرافی (این آئی او) کی ایک ٹیم نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا اور علاقے میں ہونے والے کٹاؤ کے بارے میں اعداد و شمار اور دیگر معلومات جمع کیں۔

مزید پڑھیں: گوادر پورٹ کی سیکیورٹی کیلئے نیوی کا مؤثر نیٹ ورک

این آئی او ٹیم میں شامل ایک سینئر کوسٹل انجینئر نعمت اللہ سوہو کا کہنا تھا کہ حال ہی میں ہونے والی اس تباہی میں 43 ہزار مربع فٹ کا رقبہ کھویا جا چکا ہے، انہوں نے بتایا، 'چونکہ ڈمب لگون میں واقع ہے لہذا یہ سمندری ساحلی کٹاؤ سے زیادہ دوچار ہوسکتا ہے جبکہ ایک دہائی قبل تعمیر کیے جانے والی ناقص جیٹی اور ساحلی رکاوٹ کی تعمیر نے ان خطرات کو کئی گنا تک بڑھا دیا ہے'.

انہوں نے وضاحت کی کہ ایک اور لگون کا تنگ راستہ بھی اس ساحلی کٹاؤ کا ایک اور عنصر ہے، ان کا کہنا تھا کہ سینڈیمیشن کی وجہ سے لگون میں داخل ہونے والا راستہ 2 کلومیٹر سے کم ہو کر 1 کلومیٹر تک رہ گیا ہے جوکہ سمندری لہروں کی وجہ سے مزید کم ہورہا ہے اس کے ساتھ ساتھ سمندری زمین ریتیلے ذرات پر مشتمل ہے اور اس میں کوئی ٹھوس مادہ شامل نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک پی سی -1 حکومت کو پیش کیا جا چکا ہے، جس کی منظوری کے بعد صوتحال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

پی سی-1 میں سندھ اور بلوچستان میں سمندر کی وجہ سے ہونے والے زمینی کٹاؤ کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں