سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے رویے کو 'غیر ذمہ دار اور غیرسایسی' قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ پی ٹی آئی کے تینوں ارکان نے پر زور احتجاج کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی رکن اسمبلی صورت تھیبو کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کی حمایت متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان نے کی تاہم پاکستان مسلم لیگ فنگشنل اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس عمل میں حصہ نہیں لیا۔

قرارداد میں کہا گیا تھا کہ 'عمران خان گزشتہ کئی برسوں سے قوم کو مسلسل گمراہ کررہے ہیں، اس لیے یہ ایوان عمران خان کے غیرذمہ دارانہ، غیرسیاسی اور گمراہ کن رویے کی مذمت کرتا ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: 'حکومت نے خاموش رہنے کیلئے 10 ارب روپے کی پیشکش کی'

قبل ازیں قرارداد پر بحث کے دوران پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے ارکان آمنے سامنے آگئے تھے۔

صورت حال اُس وقت نازک ہوگئی جب ایم کیو ایم کے رکن ڈاکٹر ظفر کمالی نے کہا کہ جس رہنما کے خلاف قرار لائی گئی ہے وہ دوسروں کے لیے مناسب زبان استعمال نہیں کرتا۔

انھوں نے پی ٹی آئی کے چیئرمین کا نام لیے بغیر کہا کہ 'یہ رہنما عوامی اجتماعات میں دھمکیاں دیتا ہے، اگر یہ رہنما کا رویہ ہے تو اس کی پارٹی کے کارکنوں کا رویہ کیسا ہوگا'۔

ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ آرٹیکل 62 اور 63 کی بات کرتے ہیں وہ بتائیں کہ 'یہ شخص' اس آرٹیکل پر پورا اترتا ہے یا نہیں۔

ڈاکٹر کمالی نے سیتا وائٹ اسکینڈل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، 'میں اس معاملے پر بات کرتے ہوئے شرم محسوس کرتا ہوں لیکن اس کی نشاندہی سے کوئی نہیں روک سکتا'۔

انھوں نے عمران خان کے پاک فوج کے جنرل کے خلاف مبینہ طور پر نامناسب الفاظ اور 2014 میں اسلام آباد کے دھرنے کے دوران پی ٹی وی پر حملے کی جانب بھی توجہ دلائی۔

جس کے بعد پی ٹی آئی کے ارکان ثمر علی خان، خرم شیرزمان اور ڈاکٹر سیما ضیا اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور ڈاکٹرکمالی کے جملوں کے خلاف شدید احتجاج کیا۔

پی ٹی آئی کے احتجاج پر ایم کیو ایم کے چند اور ارکان نے بھی ردعمل کا اظہار کیا اور دونوں جانب سے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

تاہم سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن اور فیصل سبزواری نے ایم کیو ایم کے ارکان کو قابو کیا۔

فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ قرارداد کی حمایت یا مخالفت ایک الگ مسئلہ ہے لیکن کسی پر ذاتی حملے کرنا ایم کیو ایم کی پالیسی نہیں ہے، 'ہم اپنے رکن کی جانب سے ادا کیے گئے الفاظ کو واپس لیتے ہیں'۔

ثمر علی خان نے قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو ذاتی حملے نہیں کرنا چاہئیں، ساتھ ہی انھوں نے ڈاکٹر کمالی کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ان کی پارٹی بھی بہت کچھ کہہ سکتی ہے، اگر کسی نے ذاتی حملے کیے تو پھر اس کو برا بھلا سننے کی بھی تیاری کرنی چاہیئے۔

ڈاکٹرکمالی کی جانب سے شدید جذباتی ردعمل سے صورت حال ایک مرتبہ پھر خراب ہوئی تاہم خواجہ اظہار الحسن نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم یہاں پر مسائل حل کرنے کے لیے ہیں، اگر ہم نے اس طرح کا رویہ اپنایا تو مسائل کبھی بھی حل نہیں ہوں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم اس لڑائی کو گلیوں میں نہیں لے جانا چاہتے، ہمیں ماضی میں تلخ تجربہ ہوا ہے' جبکہ انھوں نے واضح کیا کہ یہ لڑائی کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے کیونکہ یہ نہ تو شہر اور نہ ہی صوبے کے مفاد میں ہے۔

اس موقع پر سینئر وزیر نثار کھوڑو کا کہنا تھا کہ کسی رہنما کے ذاتی کردار پر بات کرنا غیرپارلیمانی ہے، اسی طرح کسی کو کرپٹ اور شرمناک کہنا بھی غیرپارلیمانی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بھی عمران خان کے لہجے سے نالاں ہیں'۔

نثار کھوڑو نے یاد دلایا کہ عمران خان نے ایک ڈکٹیٹر کا ان کے ریفرنڈم میں ساتھ دیا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ قرار داد کی حمایت نہیں کریں گے اور غیرجانبدار رہیں گے۔

صورت تھیبو نے نثار کھوڑو کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی قرارداد کے حق میں بات کرتے ہوئے کہا کہ نام نہاد قائد کو دوسروں کے حوالے سے جھوٹے بیانات دینے کی عادت ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ مختلف مواقع پر الزامات لگاتے ہیں اور 'ضدی بچے' کی طرح پیش آتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے پاناما پیپر کیس کو جاری نہ رکھنے کے لیے 10 ارب روپے کی پیش کش کا الزام لگایا لیکن جب ان سے ثبوت دینے کو کہا گیا تو انھوں نے کوئی ثبوت دینے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: '10 ارب روپے کی پیش کش کرنے والے کا نام عدالت میں بتاؤں گا'

صورت تھیبو نے کہا کہ 'آپ کو قوم سے سچ کہنا ہوگا نہ کہ روزانہ میڈیا کی دلچپسی حاصل کرنے کے لیے نئے جھوٹ تراشیں، اس لیے تو انھیں اب یوٹرن خان کہا جاتا ہے'۔

پی ٹی آئی کے خرم شیرزمان نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اگر کرپشن کے خلاف آواز بلند کرنا غیرذمہ داری ہے تو پھر عمران خان اس رویے کو دہرانے کا عمل جاری رکھیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اب ججز کہہ چکے ہیں کہ وزیراعظم امین اور صادق نہیں رہے۔

سندھ اسمبلی میں منگل (2 مئی) کو تین دیگر قرار دادیں بھی متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں۔


یہ رپورٹ 3 مئی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں