بھارتی عدالت نے گجرات مسلم کش فسادات کے دوران حاملہ خاتون کے گینگ ریپ اور ان کے اہلخانہ کے قتل کے ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کے الزام میں 5 پولیس افسران اور 2 ڈاکٹرز کو مجرم قرار دے دیا۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق بھارتی ریاست گجرات میں 2002 میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور ان کے 7 رشتہ داروں کو قتل کردیا گیا تھا۔

ٹرین آتشزدگی میں ہندو زائرین کی ہلاکت کے مسلم ہجوم پر جھوٹے الزام کے بعد ہونے والے فسادات میں کم از کم 2 ہزار مسلمانوں کو ہلاک کیا گیا تھا۔

جمعرات کے روز ممبئی کی عدالت نے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کی اپیل پر 7 ملزمان کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر ریپ اور قتل میں ملوث 11 ہندو افراد کی سزا کو برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔

عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے بلقیس بانو نے ان پر حملہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والے افراد کو بالآخر مجرم قرار دیئے جانے پر اطمینان کا اظہار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: گجرات فسادات: 24 میں سے 11 مجرمان کو عمر قید

ان کا کہنا تھا کہ ’بطور انسان، شہری، خاتون اور ماں کے میرے حقوق کو انتہائی سفاکانہ انداز میں روندا گیا، لیکن مجھے ہمارے ملک کے جمہوری اداروں پر اعتماد تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اب میں اور میرا خاندان محسوس کر رہے ہیں کہ ہم دوبارہ بغیر کسی خوف کے آزادانہ زندگی گزار سکتے ہیں۔‘

سال 2002 میں مسلمانوں کے 17 افراد پر مشتمل گروپ پر حملے میں بچ جانے والوں میں صرف بلقیس بانو اور ان کے دو بچے شامل ہیں، جبکہ ان کی تین سالہ بیٹی بھی اس حملے میں ہلاک ہوئی تھی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر، جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، مسلم کش فسادات سے نظریں پھیرنے کا الزام تھا، تاہم انہیں 2012 میں تمام الزامات سے بری کردیا گیا تھا۔

کیس میں سی بی آئی کے خصوصی وکیل ہیتِن ونیگاؤکر نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’میری معلومات کے مطابق گجرات فسادات کے حوالے سے یہ پہلا کیس ہے جس میں پولیس عہدیداروں کو مجرم قرار دیا گیا، تاہم تمام مجرمان فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرسکتے ہیں۔‘

تبصرے (0) بند ہیں