لاس اینجلس: یہ ممکن ہے کہ کسی کی یادداشت اتنی تیز ہوکے اسے ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز برسوں بعد بھی یاد رہے، اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ کوئی ایک دن بعد کسی کا نام تک بھول جائے۔

دنیا کے لاکھوں لوگوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے، وہ چیزوں اور ناموں کو جلدی بھول جاتے ہیں، مگر انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ ایسا کیوں ہے؟

یقینا اس مسئلے کا بھی طبی دنیا میں کوئی نہ کوئی حل موجود ہوگا، مگر اہم سوال یہ ہے کہ انسان لوگوں کے نام اور چیزیں کیوں بھول جاتا ہے؟

یقینا اچھے لوگوں کے نام اور دیگر معلومات کو یاد نہ رکھنا کبھی کبھار باعث شرم عمل بھی بن جاتا ہے، مگر ماہرین کے مطابق چیزوں کو بھول جانے میں انسان کا کوئی قصور نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: موسیقی کے ذہن اور صحت پر پڑنے والے اثرات

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس کے شعبہ نیوروبائیولاجی کے پروفیسر ڈاکٹر ڈین بونومانو کہتے ہیں کہ بعض چیزوں کو جلدی سے بھول جانے میں انسان کا کوئی قصور نہیں، یہ دراصل انسانی ارتقاء کا مسئلہ ہے۔

ڈاکٹر ڈین بونومانو کے مطابق انسانی ذہن ’یونیورس‘ نامی ایک بہت ہی پیچیدہ ڈیوائس پر مشتمل ہے، جس میں نہایت ہی چھوٹے کیڑوں جیسے ذرات، قید خانے، یا مخصوص جگہیں اور فوری طور پر خراب ہونے والے آلات ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ڈین بونومانو نے بتایا کہ بعض اوقات ذہن میں موجود یونیورس ڈیوائس کے آلات یا چیزیں بہت زیادہ معلومات پر ٹھیک طرح سے کام نہیں کرتے، اور انسان پریشان ہوجاتا ہے، کیوں کہ ایک سسٹم سے دوسرے سسٹم تک معلومات نہیں پہنچی ہوتی۔

نیوروبائیولاجی کے ماہر کا کہنا ہے کہ چھوٹی اور مشکل چیزوں کے بجائے انسانی ذہن، بڑی اور آسان چیزوں سمیت ایسے نام یا نمبر یاد رکھنے کے زیادہ قابل ہوتا ہے جو عام اور سادہ ہوں۔

مزید پڑھیں: کیا دماغ کی لہروں سے موسیقی سننا ممکن ہے؟

ان کے مطابق یہ عمل انسان جان بوجھ کر نہیں کرتا، بلکہ اس کے ذہن میں موجود سسٹم کی جانب سے ایک دوسرے سے معلومات کا تبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، اور یہ مکمل طور پر انسان کے ذہن کی تخلیق کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ڈاکٹر ڈین بونومانو نے بتایا کہ انسانی ذہن کی تخلیق اس طرح کی گئی ہے کہ وہ کبھی کبھار اندرونی مسائل کی وجہ سے ایک سے دوسری جگہ معلومات منتقل نہیں کرتا۔

انہوں نے مثال دی کہ اگر کوئی شخص کسی جہاز میں سفر کر رہا ہو، اور اس کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص اس سے بات کرتے وقت اپنا نام بیکر بتائے، تو یہ ممکن ہے کہ کئی ہفتوں بعد اس شخص کو اس کی کوئی بات یاد نہ رہے، سوائے اس کے کہ اس کا نام بیکر تھا۔

ڈاکٹر ڈین بونومانو نے ایک اور مثال دی کہ اگر وہی شخص دوسری بار جہاز میں سفر کرے، اور برابر میں بیٹھا ہوا شخص ان سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام جوہن بیکر بتانے کے بعد کہے کہ وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی دماغ کی ذہن گھما دینے والی طاقت

ڈاکٹر ڈین بونومانو کا کہنا ہے کہ کچھ ہفتوں بعد اس شخص کو جوہن بیکر کا نام تو یاد نہیں رہے گا، مگر اسے یہ یاد رہے گا کہ اس نے ایک ڈاکٹر کے ساتھ گفتگو کی تھی۔

یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر کا کہنا تھا کہ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان دماغ چھوٹی چیز کے بجائے بڑی چیز یاد رکھتا ہے۔

پہلے مثال میں آدمی کا نام اہم، بڑا اور آسان تھا، اس لیے وہ یاد رہا، دوسری مثال میں آدمی کا نام مشکل اور طویل تھا، جب کہ اس کا پیشہ بہت مختصر، آسان اور عام تھا۔

ٹھیک اسی طرح انسانی دماغ ہر اس چیز،نام یا ہندسوں کو یاد رکھتا ہے، جو آسان اور مختصر ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں