اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور اسلام آباد انتظامیہ سے بنی گالہ میں گذشتہ 20 سال کے دوران ہونے والی تعمیرات کا ریکارڈ اور راول جھیل کے کناروں پر الاٹمنٹ کی تفصیلات طلب کرلیں۔

وفاقی دارالحکومت کے علاقے بنی گالہ میں غیر قانونی تعمیرات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے اور اسلام آباد انتظامیہ جواب دیں کہ وہ اس وقت کیا کررہے تھے جب علاقے میں غیر قانونی تعمیرات جاری تھیں۔

سپریم کورٹ میں بنی گالہ میں تجاوزات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بابر اعوان کا کہنا تھا کہ کل سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ پہلے میڈیا کو دی گئی تھی۔

بنی گالہ کے ایک رہائشی کے وکیل ظفر علی شاہ نے عدالت کو بتایا کہ راول ڈیم کے کناروں سے 2 کلو میٹر تک تعمیرات پر پابندی ہے، راول ڈیم کی 2 کلو میٹر کی حدود نیشنل پارک میں آتی ہے جبکہ اس پر تعمیرات ہو چکی ہیں۔

وکیل کے مطابق 'جو تعمیرات ہوئی ہیں ان میں سپریم کورٹ، وزیر اعظم آفس،کنونشن سینٹر کی عمارتیں بھی شامل ہیں، اس طرح یہ عمارتیں بھی غیر قانونی ہیں'۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے گھر سمیت بنی گالہ کی 122 عمارتیں غیر قانونی قرار

ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ '2 کلو میٹر کی حدود میں تعمیرات پر سی ڈی اے حکام رشوت وصول کرتے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی ڈی اے نے 122 گھروں کو غیر قانونی کہا جب کہ یہ گھر سی ڈی اے افسران کو رشوت دے کر بنوائے گئے تھے۔

سی ڈی اے کی جانب سے گذشتہ روز جمع کرائی گئی رپورٹ پر عدالت نے عمران خان کو بھی جواب جمع کرانے کی ہدایت دی اور کیس کی سماعت کو جون کے پہلے ہفتے تک کے لیے ملتوی کردیا۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز سی ڈی اے کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بنی گالہ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے گھر سمیت 122 عمارتیں غیر قانونی قرار دے کر گرانے کی تجویز دی گئی تھی۔

رپورٹ کے مطابق بنی گالہ میں غیر قانونی تعمیرات کا سروے کرایا گیا ہے، غیر قانونی عمارتوں کو گرانے کی ضرورت ہے، جبکہ بنی گالا میں دفعہ 144 لگادی گئی ہے۔

'عدالت میں ثبوت پیش کروں گا'

دوسری جانب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے سامنے اس بات کا ثبوت پیش کریں گے کہ بنی گالہ ہاؤس پلان تعمیر سے قبل یونین کونسل آف مورا نور کی جانب سے منظور کرایا گیا تھا۔

اپنے دوسرے ٹوئٹر پیغام میں چیئرمین پی ٹی آئی نے قطری خط کو مثال کے طور پر استعمال کیا اور کہا کہ بنی گالہ اور لندن فلیٹس کی خرید و فروخت کے حوالے سے ان کے پیش کیے گئے ثبوت 'قطری خط کے ڈرامے' جیسے نہیں ہوں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے وکلاء نے 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے 2 قطری خطوط پیش کیے تھے۔

وزیراعظم کے وکلاء کی جانب سے یہ خطوط قطر میں کی گئی سرمایہ کاری کے ثبوت کے طور پر پیش کیے گئے تھے جبکہ یہ خطوط قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے لیٹر ہیڈ پر درج تھے جنہوں نے 2007 سے 2013 تک قطر میں حکمرانی کی۔

پاکستان تحریک انصاف پاناما کیس کی سماعت کے دوران تواتر سے ان خطوط کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جھوٹا قرار دیتی رہی تھی جبکہ 20 اپریل کو سامنے آنے والے سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی قطری خطوط کو مسترد کردیا تھا۔

بنی گالہ کے رہائشیوں کی درخواست

دریں اثناء سپریم کورٹ میں عمران خان سمیت بنی گالہ کے رہائشیوں کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں رہائشیوں کو اس کیس میں فریق بنانے کی استدعا کی گئی۔

یہ درخواست وکیل ظفر علی شاہ نے جمع کرائی۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزاروں اور بنی گالہ کے دیگر رہائشیوں نے 1992 میں سی ڈی اے سے گھروں کے لیے زمین حاصل کی تھی۔

درخواست کے مطابق درخواست گزار عمران خان بنی گالہ میں غیر قانونی تعمیرات، درختوں کی کٹائی اور راول جھیل میں گندے پانی کی وجہ سے آلودگی پر عدالت کی توجہ دلاچکے ہیں جس پر عدالت نے ازخود نوٹس لیا لہذا اس کیس میں شہریوں کو بھی فریق بنایا جائے۔


تبصرے (0) بند ہیں