پاکستانی ملبوسات کی صنعت کے جانے پہچانے نام 'کھادی' کو ان دنوں ملازمین کے حقوق کو نظرانداز کرنے اور کام کے لیے ناسازگار ماحول کی فراہمی کے الزمات کے بعد شدید تنقید کا سامنا ہے۔

کھادی انتظامیہ کی جانب سے ملازمین سے برتے گئے ناروا سلوک کے خلاف کراچی اور لاہور میں گذشتہ ایک ہفتے کے دوران ملازمین اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنان کئی احتجاجی مظاہرے کرچکے ہیں۔

کمپنی پر لگائے جانے والے الزامات میں انتظامیہ کی جانب سے اپنے بیشتر ملازمین کو مستقل کرنے کی یقین دہانی کے بعد ملازمت سے نکالا جانا اور بنا بتائے کھانے کا وقفہ لینے والی خاتون ملازم پر جرمانہ عائد کیے جانے جیسے الزامات شامل ہیں۔

تاہم کھادی کی جانب سے ایک اور وضاحتی بیان سامنے آیا ہے جس میں اس نے اپنے اوپر لگنے والے تمام الزامات کو مسترد کردیا ہے۔

گزشتہ روز بھی کھادی کا وضاحتی بیان سامنے آیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرتے یہ تمام الزامات کمپنی کے خلاف 'سازش' ہیں۔

اب کمپنی نے مزید چند باتوں کی وضاحت کی ہے جس کی تفصیل کچھ یوں ہے:

کیا کھادی نے اپنے 32 فیکٹری ورکرز کو غیر منصفانہ طریقے سے برطرف کیا؟

وضاحت: کھادی ایک ریٹیل آرگنائزیشن ہے اور وہ کوئی مینوفیکچرنگ کمپنی آپریٹ نہیں کرتی اور اس کا مال مختلف کمپنیوں سے آتا ہے جو آزادانہ طور پر کام کرتی ہیں۔

کیا کھادی کو مال دینے والی کسی کمپنی نے 32 فیکٹری ملازمین کو برطرف کیا؟

وضاحت: جن 32 ملازمین کی بات کی جارہی ہے وہ مختلف اوقات میں کھادی کو مال فراہم کرنے والی کسی کمپنی میں عارضی، ڈیلی ویج، ہفتہ وار یا گھنٹوں کے حساب سے اجرت حاصل کرنے والے ملازم رہے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی مستقل ملازم نہیں۔ چند ہفتوں قبل بیرونی وابستہ مفادات کی ایماء پر ان ملازمین نے احتجاج شروع کیا اور نیشنل انڈسٹریل ریلیشنز کمیشن (این آئی سی آر) کے کراچی برانچ میں پٹیشن دائر کردی لیکن 18 مئی 2017 کو این آئی سی آر نے پٹیشن خارج کردی۔

اس کے بعد ان 32 ملازمین نے متعلقہ کمپنی کے ساتھ مزید کام نہ کرنے کی خواہش ظاہر کی اور اپنی مرضی سے کمپنی کو استعفے جمع کرائے جبکہ ان تمام ملازمین کو کمپنی کی جانب سے مکمل حتمی ادائیگی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمین کے ساتھ بدسلوکی، 'کھادی' کو شدید تنقید کا سامنا

کھادی کے بیان میں کہا گیا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ 32 ملازمین کو برطرف کیا گیا۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ کمپنی کے تمام ملازمین سے 8 گھنٹے ہی کام لیا جاتا ہے جبکہ غیر انسانی سلوک اور کام کے ماحول سے متعلق الزامات بھی درست نہیں۔

مزید 125 ملازمین کی جانب سے دائر کی جانے والی پٹیشن کے حوالے سے کھادی نے کہا کہ یہ تمام ملازمین اب بھی متعلقہ کمپنی میں کام کررہے ہیں۔

ملازمت سے برطرفی کی دھمکی پر خود کشی کی کوشش کرنے والے خاتون ورکر کے حوالے سے کھادی کے بیان میں کہا گیا کہ 'رانی اب بھی کمپنی کا حصہ ہے اور کام کے ماحول سے مطمئن ہے، بدقسمتی سے اسے اس سارے معاملے میں گھسیٹا گیا، ہم نہیں چاہتے کہ اس پر زید دباؤ بڑھے تاہم ضرورت پڑنے پر اس کا بیان بھی پیش کیا جائے گا اور اگر رانی رضامند ہوئی تو اسے منظر عام پر بھی لایا جائے گا۔

آخر میں کمپنی نے کہا ہے کہ پاکستان میں کھادی کے کئی آؤٹ لیٹس موجود ہیں اور جن لوگوں کو کھادی ملازمین کی حالت زار اور کام کے ماحول سے متعلق شکوک و شبہات ہیں وہ خود کھادی اسٹورز آکر دیکھ سکتے ہیں اور ملازمین سے بات کرسکتے ہیں۔


تبصرے (3) بند ہیں

KHAN May 31, 2017 05:00pm
جب بھی کسی کمپنی کے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں تو ان ملازمین کو ’’عارضی، ڈیلی ویج، ہفتہ وار یا گھنٹوں کے حساب سے اجرت حاصل کرنے والے ملازمین‘‘ قرار دے کر ان کو تمام سہولتوں سے محروم قرار دے دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ‘‘ان میں سے کوئی بھی مستقل ملازم نہیں‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارے بھائی یہ بھی تو انسان ہیں ان کے بھی حقوق ہیں۔۔۔ کسی بھی طریقہ کار کو استعمال کرکے اپنی مرضی سے کمپنی کو استعفے جمع کرانے اور پھر ان کو مکمل حتمی ادائیگی کرکے کام سے نکالنا کسی صورت درست نہیں کہا جاسکتا۔ خیرخواہ
تیمور بیگ Jun 01, 2017 08:03am
پرائیویٹ کمپنیوں میں کچھ سالوں کے بعد جب ورکر سیئنر ہو جاتاہے ۔ سالانہ انکریمنٹ کی سے تنخواہ بڑھ جاتی ہے تو اسے نکالنے کے بہانے شروع ہو جاتے ہیں۔کیونکہ انھیں کم تنخواہ پر نیا بندہ مل جاتا ہے۔چھوٹی سی بات پر فارغ
ali Jun 01, 2017 09:10am
@KHAN lets inforce labor laws once for all,, govt employees and multinational are enjoying considerable benefits but these small and large private organizations don't know any kind of labor laws, Sugar mills of Sindh are more worst in this case,,