واشنگٹن: صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امریکی سپریم کورٹ سے 6 مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکا میں عارضی سفری پابندیوں کو بحال کرنے کیلئے درخواست دائر کردی، اس ایگزیکٹو آرڈر کو رواں سال کے آغاز میں ایک مقامی عدالت نے جانبدار اقدام قرار دیتے ہوئے معطل کردیا تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سفری پابندی پر عمل درآمد کے حوالے سے 9 ججز یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا ٹرمپ کی الیکشن مہم کو مذکورہ فیصلے کے حوالے سے مسلمانوں سے جانبدارانہ رویے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ایک ایمریجنسی درخواست ہائی کورٹ کے 9 ججز کے سامنے پیش کی جس میں مقامی عدالت کے دو فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی گئی، مقامی عدالت نے 6 مارچ کو ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کو ختم کرنے کا حکم دیا تھا جس میں ایران، لیبیا، سومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں پر امریکا میں داخلے پر 90 روز کی پابندی لگائی گئی تھی، یہ پابندی امریکی حکومت کی جانب سے سخت ویزا پالیسی کا حصہ قرار دی جارہی تھی۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کی سفری پابندیاں بحال کی جائیں، محکمہ انصاف

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کا یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ ماہ 25 مئی کو ورجینیا کی ایک اپیل کورٹ نے ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف مقامی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھنے کا حکم جاری کیا، انتظامیہ نے اس کیس میں ایک علیحدہ اپیل دائر کی تھی۔

امریکی محکمہ انصاف کی ترجمان سارہ اسگور فلورس نے ایک جاری بیان میں کہا کہ ’ہم نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ اس اہم کیس کی سماعت کرے اور ہم اس حوالے سے پُر اعتماد ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر قانون کے مطابق، قوم کے تحفظ اور ہماری کمیونٹی کو دہشت گردوں سے بچانے کیلئے ہے‘۔

دوسری جانب اس ایگزیکٹو آرڈر کو چیلنج کرنے والے امریکی سول لبرٹیز یونین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ’ہم نے اس غیر قانونی پابندی کو پہلے بھی شکست دی ہے اور ہم دوبارہ بھی ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں‘۔

اس کیس کے فیصلے کیلئے کم سے کم 5 ججز کے ووٹوں کی ضرورت ہوگی اور اگر عدالت نے ایمرجنسی درخواست کے حق میں فیصلہ دیا تو سفری پابندی پر فوری عمل درآمد کا آغاز ہوجائے گا۔

خیال رہے کہ رواں سال 4 فروری کو امریکا کی وفاقی عدالت نے 2 ریاستوں کی درخواست پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے 7مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی ہٹانے کا حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی

واشنگٹن کے شہر سیٹل کی وفاقی عدالت کے جج جیمز رابرٹ نے ریاست واشنٹگن اور منی سوٹا کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ احکامات معطل کردیے تھے جن میں انہوں نے 7 مسلم ممالک کے شہریوں پر 4 ماہ کے لیے امریکا آمد پر پابندی عائد کردی تھی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل 29 جنوری کو بھی امریکا کی ریاست نیو یارک اور ڈلاس کی مقامی عدالتوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ان احکامات کو عارضی طور پر معطل کیا تھا، مگر ان عدالتوں کے احکامات امریکا بھر میں نافذ العمل نہیں تھے۔

اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال 28 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا تھا، جب کہ ایران، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر بھی 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزوں کے اجراء پر پابندی عائد کردی تھی۔

مزید پڑھیں: میکسیکو سرحد پر دیوار کی تعمیر،ٹرمپ نے دستخط کردیئے

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے متنازع احکامات جاری کیے جانے کے بعد امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔

یاد رہے کہ وفاقی عدالت کے فیصلے کے بعد وائٹ ہاؤس نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف دیے گئے عدالتی فیصلے کو ’اشتعال انگیز‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان احکامات کو چیلنج کیا جائے گا، تاہم اگلے چند لمحوں میں وائٹ ہاؤس ’اشتعال انگیز‘ لفظ سے دستبردار ہوگیا۔

اُس وقت محکمہ انصاف کی ترجمان کا کہنا تھا کہ صدارتی حکم نامے کا مقصد وطن کی حفاظت کرنا ہے اور آئینی اداروں پر امریکی عوام کی حفاظت کو یقنینی بنانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں