ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے ہر 10 میں سے ایک فرد موٹاپے کا شکار ہے، جب کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر موٹاپے کی یہی رفتار رہی تو 2025 تک دنیا کی ہر 5 میں سے ایک خاتون موٹاپے کا شکار ہوگی۔

مگر اس خوفناک حقیقت سے ہٹ کر اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ موٹاپے کی شکار ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے مختلف نقائص کے حامل ہوتے ہیں۔

ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جن ماؤں کا وزن ضرورت سے زیادہ ہے، ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی و ساختی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

سائنس جرنل بی ایم جے میں شائع شدہ سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق کی رپورٹ کے مطابق جو مائیں موٹاپے کا شکار ہوتی ہیں، ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں دل، آنکھ، ٹانگ، بازو، ریڑھ کی ہڈی، نطام ہاضم و اخراج ، چہرے، عصبی اور جینیاتی سسٹم میں خرابیاں ہوتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہر 10 میں سے ایک شخص موٹاپے کا شکار
فوٹو/ شٹر اسٹاک—۔
فوٹو/ شٹر اسٹاک—۔

ماہرین نے مختلف ہسپتالوں اور اداروں میں موجود ڈیٹا سمیت وہاں کی مردم شماری کا ڈیٹا بھی دیکھا، علاوہ ازیں انھوں نے 2001 سے 2014 تک سوئیڈن میں ہونے والی 20 لاکھ سے زائد پیدائشوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا۔

ماہرین نے ماؤں کے وزن کو عالمی ادارہ صحت کے بتائے گئے اصولوں کے تحت پرکھا اور بچوں میں ہونے والی ساختی تبدیلیوں کا جائزہ بھی لیا۔

جائزے سے پتہ چلا کہ جن ماؤں کا وزن زیادہ ہے اور وہ موٹاپے کا شکار ہیں، ان کے ہاں پیدا ہونے والے بچے نقائص اور ساختی تبدیلی کے ساتھ پیدا ہوئے۔

مزید پڑھیں: 30سال سے زائد عمر میں ماں بننا کیوں فائدہ مند

ماہرین نے اپنی رپورٹ میں یہ نہیں بتایا کہ بچوں میں کس حد تک نقائص پیدا ہوتے ہیں، تاہم انھوں نے مسلسل خواتین کے وزن کم کرنے کی سفارشات کیں۔

ماہرین کے مطابق 20 لاکھ سے زائد بچوں میں سے 43 ہزار 500 بچوں میں نقائص اور ساختی تبدیلیاں پائی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: پیدائش سے قبل بچے کی جنس کی پیشگوئی ممکن

سال 2000 تک دنیا بھر میں موٹاپے کا شکار خواتین کی تعداد 50 لاکھ تھی، جو 2010 تک بڑھ کر ایک کروڑ تک پہنچ گئی۔

عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو 2025 تک دنیا کی ہر پانچ میں سے ایک خاتون موٹی ہوگی۔

فوٹو/ شٹر اسٹاک—۔
فوٹو/ شٹر اسٹاک—۔

تبصرے (0) بند ہیں