ضیاء الحق کے سخت دور میں 'ڈسکو دیوانے' کیسے مشہور ہوا؟

اپ ڈیٹ 05 جولائ 2017
قدامت پسند ضیاء حکومت نے فنونِ لطیفہ کے حوالے سے سخت رویہ اپنایا تھا مگر موسیقی پر کبھی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔  — خاکہ خدا بخش ابڑو۔
قدامت پسند ضیاء حکومت نے فنونِ لطیفہ کے حوالے سے سخت رویہ اپنایا تھا مگر موسیقی پر کبھی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔ — خاکہ خدا بخش ابڑو۔

ضیا الحق کی سخت آمریت (88-1977) کے پاکستان کے سماجی، ثقافتی اور سیاسی ڈھانچوں پر پڑنے والے اثرات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ بلاشبہ، جتنا کچھ آپ نے سنا اور پڑھا ہے وہ زیادہ تر حقیقت پر مبنی باتیں ہیں۔ لیکن جب بات آتی ہے فنون کی، خاص طور پر موسیقی کی، تو ہمیں ان کی آمریت کچھ بہت ہی دلچسپ ستم ظریفیوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔

مثلاً، اگرچہ ان کے آمرانہ دور میں پاپ موسیقی کی تخلیق اور اسے بجانے کی حوصلہ شکنی کی گئی تھی، لیکن حقیقت (عام خیال کے برعکس) یہ ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر اس قسم کی موسیقی پر کبھی بھی مکمل طور پر پابندی عائد کی ہی نہیں گئی تھی۔

1980 کی دہائی میں، چند مسلم ممالک کی قدامت پسند حکومتوں کے برعکس، پاکستان میں لوگوں کا موسیقی کے ساتھ نہ صرف کافی لگاؤ رہا، بلکہ موسیقی کی کئی اقسام بشمول پاپ، خود کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوئیں، حالانکہ حکومت میں موجود تنگ نظر عیب جوؤں نے کئی شکایات بھی کیں۔

اور تو اور، ضیا الحق، جو خود مذہب کے بعض بے لچک معاملات پر ذرا بھی لچک کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے، لیکن اپنے خیالات کو لوگوں کے ڈرائنگ رومز تک پہنچانے کے لیے انہوں نے خود موسیقی کا استعمال کیا۔

1970 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے جس طرح عوامی مقبولیت حاصل کی تھی — جب سرکاری ٹی وی اور ریڈیو باقاعدگی کے ساتھ مزدور طبقے کے لیے گیت، لوک موسیقی اور شہروں میں مقبول عام موسیقی نشر کرتے تھے — ان کی اس ابتدائی کامیابی سے آشنا ضیا حکومت نے بھی لوگوں کے ذہنوں میں حکومت کے خدا ترس اور حب الوطن ہونے کا تاثر قائم کرنے کی خاطر اسی طریقے کو اختیار کیا۔

آمریت کے دوران لوک اور قومی گیتوں کو مقامی اور مغربی آلات موسیقی کے امتزاج کے ذریعے ترتیب دے کر ٹی وی اور ریڈیو پر اکثر اوقات نشر کیا جاتا تھا۔ لیکن ان گیتوں میں عوام میں مقبول موضوعات، یا صوفی لوک تصورات کے برعکس مذہب، خاندانی اقدار اور ریاستی اداروں (پولیس، فوج، نیوی وغیرہ) کے وقار کا بڑھا چڑھا کر اظہار شامل ہوتا تھا۔

اور یہ بھی کہ، حکومت کے حد سے زیادہ قدامت پسند خیالات کی حامل ہونے کے باوجود ٹی وی اور ریڈیو پر پاپ موسیقی کو کبھی بھی بند نہیں کیا گیا، بھلے ہی حکومت نے ان چند گانوں کے نشر ہونے پر پابندی عائد کر دی تھی جو بھٹو حکومت میں تقریباً روزانہ سرکاری نشریاتی اداروں میں سنائی اور دکھائی دیتے تھے۔

عالمگیر اور محمد علی شیہکی جیسے پاپ گلوکاروں کو ٹی وی پر کافی زیادہ نشر کیا جاتا تھا (صرف اسی صورت میں کہ جس میں انہوں نے مناسب کپڑے زیب تن کیے ہوئے ہوں)۔ لیکن حکومت نے (1981 میں) سرکاری چینل پی ٹی وی اور پاکستان ریڈیو کو اس وقت ملک میں شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے نئے نئے پاپ گلوکاروں نازیہ حسن اور زوہیب حسن کے گانوں پر پابندی عائد کرنے کا ’مشورہ‘ دیا۔

نازیہ اور زوہیب ملک کے سب سے پہلے اردو ڈسکو البم، ڈسکو دیوانے (1980) کے ساتھ موسیقی کی دنیا میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ لندن میں ریکارڈ ہونے والا یہ البم ڈسکو دھنوں میں ضم پاکستانی/انڈین ’فلمی’ موسیقی اور شاعری سے بھرپور تھا۔

اس البم نے پاکستان میں شہرت کی بلندیاں چھو لیں۔ نوجوان پاکستانی ریڈیو پاکستان پر بار بار البم کے گانوں کی فرمائش کرتے اور پی ٹی وی نے بھی اس البم کی ایک یا دو ویڈیوز کو نشر کیا۔ لیکن جب ضیا کی نام نہاد مجلس شوریٰ کے ایک رکن نے پی ٹی وی پر البم کے ٹائٹل سونگ کی ویڈیو دیکھی تو انہوں نے ضیا کو شکایت دی کہ پی ٹی وی حکومت کی ’اسلامی روح‘ کو ٹھیس پہنچا رہا ہے اور ’نوجوان نسل کو بگاڑ' رہا ہے۔

ان دنوں مقامی موسیقاروں کو کوریج کے لیے سرکاری میڈیا کا سہارا لینا پڑتا تھا (تاکہ ان کے البم کی فروخت میں اضافہ ہو، یا پھر وہ بڑے بڑے ’پرائیوٹ فنکشنز’ کی مارکیٹ کا حصہ بن سکیں)۔ ان دو گلوکاروں کے والدین نے اس وقت کے وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق سے ملاقات کا بندوبست کرنے کی بھرپور کوششیں کی۔ کئی کوششوں کے بعد، نازیہ اور زوہیب بالآخر خود آمر کے ساتھ ملاقات کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

ٹین ایجر گلوکاروں کو اسلام آباد میں محل نما صدارتی رہائش گاہ میں طلب کیا گیا، دونوں گلوکار پی ٹی وی نیوز ٹیم اور کیمروں کی موجودگی میں مسکراتے جنرل کے آگے بیٹھے تھے، جہاں انہیں ایک طویل لیچکر دیا گیا کہ ایک مسلمان اور پاکستانی ہونے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ جلد ہی ان کے گانوں پر سے پابندی ختم کر دی گئی۔

پی ٹی وی پر بڑھتے ہوئے مذہبی پروگرامز کے ساتھ ساتھ پاپ موسیقی کو بھی سینسرز کے متعین کردہ معیار کے مطابق نشر کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ سینسرز کے معیار میں یہ شرائط شامل تھیں: گاتے وقت رقص نہ ہو یا نہ ہونے کے برابر ہو؛ مرد اور خواتین گلوکاروں کے درمیان مناسب فاصلہ ہو؛ اور گلوکار کے مغربی لباس، خاص طور پر جینز پہننے سے اجتناب کو قابل ترجیح تصور کیا جاتا تھا۔

اس حوالے سے ضیا حکومت بار بار ستم ظریفی کا شکار ہوئی۔ حتیٰ کہ اپنے سب سے زیادہ رجعت پسندانہ عرصے (87-1986) کے دوران بھی، اچانک ناظرین کے لیے ایک ایسا نغمہ اور ویڈیو نشر کی گئی جس نے پورے ملک میں شہری پاپ میوزک کی لہر کو جنم دیا۔ گانا تو ویسے 'بے ضرر' دل دل پاکستان (1987) تھا، لیکن اس گیت کو متوسط طبقے کے ماڈرن لباس میں ملبوس نوجوانوں کے ایک گروپ نے گایا تھا جو خود کو وائٹل سائنز پکارتے تھے۔

ضیا ایک انوکھی شخصیت کے مالک تھے۔ اقتدار میں رہنے کے لیے مذیب کا استعمال کرنے کے فن اور سیاست پر انہیں ملکہ حاصل تھا۔ مگر ان شدت پسند شخصیات اور علماء کو، جن کی ان کی حکومت سے قبل معاشرے میں کوئی خاص حیثیت ہی نہ تھی، مرکزی دھارے میں لے آنے کے باوجود بھی ضیا اس بات سے محتاط تھے کہ وہ ’روایتی ملّا’ کی طرح نہ دکھیں۔

پی ٹی وی کے سابق جنرل مینیجر، مرحوم برہان الدین حسن، 2003 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ان سینسرڈ میں رقم طراز ہیں کہ کئی موقعوں پر ضیا کو ان کے چند مذہبی اتحادیوں نے داڑھی رکھنے کا مشورہ دیا، لیکن انہوں نے ہمیشہ انکار کیا۔ برہان الدین نے یہ بھی لکھا کہ ضیا بڑی غور سے ٹی وی دیکھا کرتے تھے۔

مایہ ناز فلم اور ٹی وی ہدایت کار اور پی ٹی وی کے طنز و مزاح کے مقبول عام پروگرام ففٹی ففٹی (84-1978) کے پروڈیوسر شعیب منصور نے 1990 کی دہائی میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ضیا پروگرام دیکھنے کے بعد اکثر اوقات مجھے فون کرتے اور اپنے مشاہدات سے آگاہ کرتے تھے۔ منصور نے بتایا کہ ایک وقت تو ایسا بھی آیا کہ جب فون کالز کا سلسلہ اس قدر بڑھ گیا تھا کہ ففٹی ففٹی کی ٹیم یہ سوچ میں پڑ گئی کہ شاید ’صدر’ اپنی تمام شامیں ٹی وی کے آگے بیٹھ کر ہی گزارتے ہیں۔

ضیا حسینہ معین کے رومانس اور مزاح پر مبنی ڈرامے ان کہی (1982) کے بہت بڑے مداح تھے۔ لیکن، ایک بار انہوں نے اس ڈرامہ سیریل کے پروڈیوسر محسن علی کو فون کیا اور 'مشورہ’ دیا کہ ڈرامے میں موجود تمام مرد و خواتین اداکاروں کو قمیض شلوار میں ملبوس دکھایا جائے اور صرف منفی کرداروں کو ہی مغربی لباس میں ملبوس دکھایا جائے۔

اگر آپ یوٹیوب یا ڈی وی ڈی پر یہ ڈرامہ سیریل دیکھیں تو پائیں گے کہ وہ مرد کردار جو پہلے چند قسطوں میں مغربی لباس میں ملبوس نظر آ رہے تھے وہ اچانک سے قمیض شلوار پہنے ہوئے ہیں۔

اس قدم پر ڈرامے کے پروڈیوسرز اور اداکاروں کی شکایت کے بعد ضیا نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا اور ’مثبت کرداروں’ کو بھی مغربی لباس زیب تن کرنے کی اجازت دے دی۔ تاہم نے انہوں نے پی ٹی وی کو ساڑھی میں ملبوس خواتین کو دکھانے سے منع کر دیا تھا۔

یہ مضمون 2 جولائی 2017 کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Qasim Jul 04, 2017 03:33pm
N F pracha sb. Ap sirf mazi k bare main hi kyon likhte hain kazbi hal pr b nazar durain. I like u r articles specially pictorial ones.