اسلام آباد: پاناما پیپرز کیس کے سلسلے میں شریف خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) 10 جولائی کو اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے والی ہے جس کے نتائج کے بارے میں ماہرین کی متضاد آراء سامنے آرہی ہیں۔

رواں سال اپریل میں سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں بننے والے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قانونی ماہرین جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے ممکنہ فیصلے اور اس کے اثرات کو مختلف طریقے سے دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

مشہور ماہر قانون ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی شواہد جمع کرنے والی ایک کمپنی ہے جو شواہد جمع کرنے کے بعد اپنی رپورٹ خصوصی عدالت میں جمع کرائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو شواہد جمع کرنے کا کام دیا تھا لہٰذا جے آئی ٹی کو اپنے کام پر دھیان دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو اس معاملے میں اپنی رائے نہیں دینی چاہیے کیونکہ یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے جو اس کیس میں شامل لوگوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 2 جج صاحبان پہلے ہی وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے چکے ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ وہ مزید عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں ہوں گے اور نتیجتاً باقی تین جج صاحبان جے آئی ٹی رپورٹ پر مزید کارروائی کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی نے تیسری کارکردگی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کی کاپیاں درخواست دہندگان اور جواب دہندہ گان کو پیش کرکے انہیں اپنے دلائل اور اعتراضات کے لیے مدعو کرے گی۔

اس کیس میں شامل افراد کے دلائل سننے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کی صورت میں عدالت اس کیس کا حتمی فیصلہ دے سکتی ہے یا پھر عدالت عظمیٰ وزیراعظم کو کیس سے الگ بھی کرسکتی ہے یا پھر عدالت اس کیس کے ریفرنس کو احتساب عدالت جیسے مناسب فورم پر بھی بھیج سکتی ہے۔

جے آئی ٹی کے شواہد کے مطابق اگر وزیراعظم نواز شریف ایماندار نہیں پائے گئے تو سپریم کورٹ انہیں نااہل قرار دے سکتی ہے یا پھر اس معاملے کو الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کو بھیج سکتی ہے۔

یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے بھی جعلی ڈگری رکھنے کے جرم میں کئی پارلیمینٹیرینز کو نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں: 'جے آئی ٹی کا فیصلہ خلاف آیا، تو وزیراعظم مستعفیٰ ہوجائیں گے'

الیکشن کمیشن کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ ای سی پی میں جعلی ڈگری جمع کرانے کے جرم میں ریپریزنٹیشن آف پیپلز ایکٹ کے تحت اُس قانون ساز کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے جس میں تین سال تک قید اور بھاری جرمانہ شامل ہے لیکن، وزیراعظم نواز شریف کا معاملہ اس سے الگ ہے لہٰذا خصوصی عدالت اسے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت دیکھے گی۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضٰی کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کو سپریم کورٹ کے حکم پر تشکیل کیا گیا تھا لہٰذا سپریم کورٹ ہی اس معاملے کی مزید کارروائی کو دیکھے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل قرار نہیں دے سکتی کیونکہ یہ قدرتی انصاف کے اصول کے خلاف ہے جبکہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی رپورٹ سے متاثرہ فریق کو اپنا دفاع کرنے کا مکمل موقع فراہم کرے گی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جواب دہندہ گان سپریم کورٹ کا لارجر بینچ بنانے کے لیے درخواست دائر کریں گے تو موجودہ بینچ اس درخواست پر اپنا فیصلہ سنا سکتا ہے یا پھر اس درخواست کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کی جانب بھیجا جاسکتا ہے تاکہ وہ اس درخواست کے حوالے سے مناسب فیصلہ دیں۔

دوسری جانب پاکستان بار کونسل کے سابق چیئرمین محمد رمضان چوہدری کا کہنا ہے کہ پاناما کیس کے 5 رکنی بینچ نے چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ پاناما فیصلے پر عملدرآمد کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیں۔


تبصرے (0) بند ہیں