وزیراعظم سوالات کے اطمینان بخش جوابات دینے میں ناکام:جے آئی ٹی

اپ ڈیٹ 12 جولائ 2017
وزیراعظم 15 جون کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے باہر آتے ہوئے—فائل فوٹو
وزیراعظم 15 جون کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے باہر آتے ہوئے—فائل فوٹو

کراچی: شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ الزامات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے مطابق 15 جون کو اپنی پیشی کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف 'بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات' نہ دے سکے۔

پیر (10 جولائی) کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ وزیراعظم تحقیقاتی ٹیم کے سامنے 'ٹال مٹول اور قیاس سے کام لیتے جبکہ تعاون نہ کرتے دکھائی دیئے'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ 'دوران انٹرویو وہ زیادہ تر مائل بہ گریز اور خیالات میں محو رہے، ان کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی بات پر مبنی تھا'۔

وزیراعظم کے بیان پر تحقیقاتی ٹیم کے تجزیے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف غیر واضح جوابات دے کر 'بیشتر سوالات کو رد کرتے رہے' یا حقائق کو چھپانے کے لیے تفصیلات یاد نہ ہونے کا اظہار کرتے رہے۔

جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان میں نواز شریف نے اپنی ابتدائی زندگی، سیاست میں آمد اور تین دہائیوں پر مشتمل سیاسی کریئر کے دوران اپنے عہدوں کی تفصیلات بتائیں۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف استعفیٰ دیں یا انتظار کریں؟ تجزیہ کار کیا کہتے ہیں

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی ملکیت میں موجود یا انہیں حاصل ہونے والے تمام اثاثہ جات انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں واضح ہیں۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں ظاہر کردہ اثاثہ جات کے علاوہ ان کی ملکیت میں کچھ اور موجود نہیں'۔

تاہم انہوں نے جے آئی ٹی کو آگاہ کیا کہ ابتدائی طور پر وہ اپنے مرحوم والد کی جانب سے پاکستان میں قائم کردہ کمپنیوں کے شیئرہولڈر یا ڈائریکٹر تھے لیکن تقریباً تین دہائیوں سے 'میں ان میں سے کسی کمپنی کا ڈائریکٹر نہیں ریا اور 1985 کے بعد سے کسی بھی صورت میں ان کمپنیوں کے کاروبار میں فعال کردار ادا نہیں کیا'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'میں 1981 میں وزیر خزانہ بنا، حالانکہ میں کچھ کمپنیوں کا ڈائریکٹر تھا لیکن 1981 کے بعد سے میں کوئی کاروبار نہیں سنبھال رہا، 1998 کے دوران میں نے خود کو کاروبار سے مکمل طور پر علیحدہ کرلیا'۔

مزید پڑھیں: شریف خاندان کا مکمل ٹیکس ریکارڈ موجود نہیں، جے آئی ٹی رپورٹ

نواز شریف کا اپنے بیان میں یہ بھی کہنا تھا کہ 'کاروبار سے علیحدگی کا مطلب خود کو انتظامی افعال سے الگ کرنا تھا نہ کہ کمپنی کے مالی مفادات سے، کیونکہ مالی مفادات سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد کیسے گزارا کیا جاسکتا ہے'۔

لندن فلیٹس

لندن میں موجود جائیدادوں کے حوالے سے وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ 'وہ 1989 اور نوے کی دہائی میں لندن گئے تھے تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں قیام کیا تھا، ان کا کہنا تھا 'مجھے معلوم تھا کہ حسن اور حسین جو لندن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ ان اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے، ان دونوں کے قیام کے تمام اخراجات اُس رقم سے پورے ہوتے جو میرے والد انہیں بھجوایا کرتے، میں جانتا ہوں ہم گراؤنڈ رینٹ، سروس چارجز، اور دیگر سہولیات کے پیسے ادا کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ان فلیٹس کا کرایہ ادا کیا جارہا تھا یا نہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ان معاملات کو حسین دیکھتا تھا اور وہ بہتر جانتا ہے، میں یہ جانتا ہوں کہ یہ انتظام شیخ الثانی اور میرے والد نے کیا تھا، تاہم مجھے یہ نہیں پتہ کہ بیریئر سرٹیفکیٹس کس طرح منتقل ہوئے'۔

وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں جب یہ کہا تھا کہ وہ وقت آنے پر تفصیلات بتائیں گے تو ان کی مراد قطری فیملی اور اپنے والد کے درمیان ہونے والی سرمایہ کاری نہیں تھی۔

برطانوی اخبار دی گارجین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں شامل اپنی اہلیہ کے بیان پر نواز شریف کا کہنا تھا 'میرا جواب یہ ہے کہ کئی دفعہ ایسی باتیں لاعلمی کی وجہ سے کہہ دی جاتی ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

خیال رہے کہ غیر ملکی اخبار دی گارجین کی رپورٹ میں نواز شریف کی اہلیہ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس 2000 میں حسن اور حسن کے لیے خریدے گئے، جب وہ تعلیم کے لیے لندن میں موجود تھے۔

حسین نواز کی جانے سے دیئے جانے والے بھاری رقم کے تحفے پر ان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ 'مجھے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں لگتی کہ میرے بیٹے حسین نے مجھے رقم تحفے میں بھجوائی جسے میں نے خود پر خرچ کیا یا اپنی بیٹی مریم کو دے دیا، یہ پاکستان آنے والا غیرملکی زرمبادلہ ہے اور رقم باقاعدہ بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیجی گئی'۔

جے آئی ٹی کی جانب سے پوچھے گئے سوالات اور نواز شریف کے دیئے گئے جوابات کچھ اس طرح تھے۔

سوال: اپنی تقاریر میں آپ نے کہا تھا کہ عزیزیہ اور گلف اسٹیل کا تمام ریکارڈ موجود ہے مگر بعد ازاں سپریم کورٹ میں آپ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، کیا آپ اس تضاد کی وضاحت کرسکتے ہیں؟

جواب: مجھے یقین نہیں، شاید میں نے اسپیکر کو ریکارڈ فراہم کیا ہو، لیکن میں اس حوالے سے یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

سوال: آپ نے کہا تھا کہ فریقین 6، 7 اور 8 نے دوران کارروائی گلف اسٹیل اور عزیزیہ کے حوالے سے جو کچھ سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا آپ نے ذاتی طور پر یہ دیکھا کہ ان فریقین نے سپریم کورٹ میں کیا جمع کرایا ہے یا آپ کی معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت پر مبنی ہے؟

جواب: میں نے ان کی جمع کرائی چیزیں نہیں دیکھیں، میری معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر قائم ہے لیکن انہوں نے جو کچھ جمع کرایا ہے میں اس کی توثیق کرتا ہوں۔

سوال: کیا آپ کے پاس ایسی کوئی دستاویزات موجود ہیں جو آپ آج لائی گئی دستاویزات کے علاوہ پیش کرنا چاہیں؟

جواب: مزید کوئی دستایزات پیش کرنے کے لیے موجود نہیں، ہم پہلے ہی اپنے پاس موجود تمام دستاویزات پیش کرچکے ہیں۔

سوال: 1999 میں کوئینز بینچ ڈویژن نے ایون فیلڈ جائیدادوں پر انتباہ جاری کیا تھا جسے تصفیے کی بنیاد پر ہٹادیا گیا، اس تصفیے کی شرائط سے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب: میں نے اس بارے میں سنا ہے لیکن مجھے تصفیے کی شرائط کا علم نہیں۔

سوال: آپ نے 2005 میں خاندانی اثاثوں کے تصفیے کا بھی حوالہ دیا تھا۔ کیا گلف اسٹیل سے حاصل آمدن کی سرمایہ کاری کا معاملہ ایون فیلڈ جائیدادوں کے حوالے سے دیکھا گیا تھا؟

جواب: ہاں، شاید اس حوالے سے بات چیت ہوئی تھی اور چونکہ یہ فلیٹس حسن اور حسین کی ملکیت میں رہے، میرے خیال سے ان کا مالک حسن ہے، لیکن میں پورے یقین سے ایسا نہیں کہہ سکتا۔

سوال: حسین کا دعویٰ ہے کہ اپارٹمنٹس ان کے ہیں مگر عملی طور پر ان میں سے ایک اپارٹمنٹ میں کئی دہائیوں سے حسن رہائش پذیر ہیں، کیا آپ کو یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟

جواب: بھائیوں کے درمیان ایسا ہونا غیرمعمولی نہیں ہے۔

سوال: کیا آپ حسین نواز کی کمپنیوں کے حوالے سے ان کے اور مریم نواز کے درمیان دستخط کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں جانتے ہیں؟

جواب: مجھے مریم (نواز) صفدر کی جانب سے حسین نواز کی دستخط کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی معلومات نہیں۔

سوال: کیا آپ نیشنل بینک آپ پاکستان کے سعید احمد کو جانتے ہیں اور کیا آپ کا ان کے ساتھ کوئی کاروبار تھا؟

جواب: میں سعید احمد کو طویل عرصے سے جانتا ہوں لیکن میرا ان کے ساتھ کوئی کاروباری تعلق نہیں۔

سوال: کیا آپ قاضی فیملی کو جانتے ہیں؟

جواب: میں انہیں نہیں جانتا، میں کافی لوگوں سے ملتا ہوں اور مجھے سب یاد نہیں رہتے۔

سوال: کیا آپ شیخ سعید کو جانتے ہیں؟

جواب: ہاں میں انہیں طویل عرصے سے جانتا ہوں، لیکن میرا ان سے کوئی کاروباری تعلق نہیں۔

سوال: حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں آپ کی جانب سے 2002-2001 میں نیب کے ساتھ ایک تصفیہ کیا گیا جبکہ چوہدری اور رمضان ملز سے لیے گئے قرضوں کے ذریعے ادائیگی کی گئی، مہربانی کرکے ہمیں اس تصفیے کی تفصیلات سے آگاہ کریں؟

جواب: مجھے اس بات کا نہیں معلوم کہ قرضہ لیا گیا تھا، مجھے اس معاملے کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔

سوال: کیا آپ نے اپنے اہل خانہ کو بیرون ملک رقوم بھجوائیں؟

جواب: نہیں، میں نے نہیں بھجوائیں۔

سوال: ہل میٹلز سے ملنے والی رقم کا کچھ حصہ سیاسی فنڈنگ کے لیے استعمال کیا گیا؟

جواب: نہیں، لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو یہ جرم ہے۔

سوال: کیا یہ غیرملکی فنڈنگ میں شمار نہیں ہوگا؟

کوئی جواب نہیں دیا گیا۔


یہ خبر 12 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں