لاہور: جہاں ایک جانب اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو امید ہے کہ سپریم کورٹ پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ آئندہ ہفتے میں جاری کردے گی وہیں حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اب ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے عناصر پر نواز شریف کو عہدے سے ہٹانے کی سازشوں کا راگ الاپنا بھی بند کردیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لیگی رہنماؤں کی ساری توجہ 'اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ' سے ہٹ کر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پر مرکوز ہوگئی ہے جس نے شریف خاندان کے خلاف منی لانڈرنگ الزامات کی تحقیقات کرکے گذشتہ ہفتے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر لیگی رہنما نے ڈان کو بتایا کہ 'ہمارا سازش کا پیغام کارکنان اور عوام تک پہنچ چکا ہے، اب ہم صرف جے آئی ٹی پر بداعتمادی میں اضافے اور اس کی رپورٹ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پر غور کررہے ہیں'۔

انہوں نے قیادت کی توجہ کا مرکز تبدیل ہونے کی دو وجوہات بیان کیں، ان میں سے ایک سپریم کورٹ کی جانب سے وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری، اور وزیراعظم کے معاون خصوصی آصف کرمانی کی تقاریر طلب کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سازش کے ہدایت کار پاکستان سے باہر ہیں، وفاقی وزرا

واضح رہے کہ ان تقاریر میں ایسا مواد شامل تھا جس میں نواز شریف کے خلاف ہونے والی سازشوں میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ملوث ہونے کی نشاندہی کی گئی تھی، جبکہ دوسری وجہ نواز شریف کی جانب سے جاری ہونے والی ہدایات ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لیگی قیادت اب اپنے ابتدائی بیان کو بھی تبدیل کرچکی ہے، رہنماؤں کی جانب سے الزام عائد کیا جارہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف سازش کے ہدایتکار ملک سے باہر بیٹھے ہیں جبکہ پی ٹی آئی چیئرمین انہیں کے کہنے پر کام کررہے ہیں۔

اس حوالے سے سعد رفیق سے یہ جاننے کی کوشش کہ جن 'غیر ملکی ہدایت کاروں' کی وہ بات کررہے ہیں کیا وہ پاکستانی پاسپورٹ بھی رکھتے ہیں، کامیاب نہ ہوسکی۔

یاد رہے کہ پی ٹی آئی کے 2014 کے اسلام آباد دھرنے کے دوران بھی پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سابق آئی ایس آئی چیف پر نواز شریف کو ہٹانے کے لیے اس احتجاج کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا مستعفی ہونے سے انکار

لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ 'چونکہ جے آئی ٹی اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کراچکی ہیں لہذا عوامی طاقت کے مظاہرے اور پرانے مؤقف کو دہرانے کا فائدہ نہیں، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت پارٹی اس بات پر متفق ہے کہ وزیراعظم نواز شریف استعفے کے لیے ڈالے جانے والے دباؤ کے سامنے ہار نہیں مانیں گے، شریف خاندان سپریم کورٹ میں کیس کا سامنا کرے گا اور عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرے گا'۔

خیال رہے کہ پنجاب حکومت کا ماننا ہے کہ پاناما پیپرز کیس میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے کسی سازش کے 'ثبوت موجود نہیں'۔

ترجمان پنجاب حکومت نے ڈان کو بتایا کہ 'پاناما پیپرز کیس میں فوج سمیت دیگر اداروں کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف سازش کے کوئی شواہد موجود نہیں، اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو اسے سامنے آنا چاہیئے، تاہم جے آئی ٹی سے جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ جب یہ الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان غیر ملکی ہدایت کاروں کے اسکرپٹ پر عمل کررہے ہیں تو اس کی وجہ ان کا جمہوری نظام کی سرحد کو پار کرنا تھی۔

ملک احمد خان کے مطابق 'ملکی ترقی کے لیے سیاسی استحکام وقت کی اہم ضرورت ہے اور جب عمران خان اور کمپنی دھرنوں کے ذریعے ترقی کے عمل کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ خیال آتا ہے کہ ایسا غیر ملکی ہدایت کاروں کے کہنے پر ہورہا ہے جو پاکستان کو آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے'۔

یہ بھی پڑھیں: جے آئی ٹی رپورٹ: ’اس بار سازش کرنے والے بے نقاب ہوں گے‘

دوسری جانب پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری نے وفاقی وزیر کی جانب سے اسکرپٹ رائٹر کی اس تمام کہانی کو بےبنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ لیگی قیادت جن افراد کا حوالہ دے رہی ہے وہ پاکستان میں موجود ہیں اور ایک تعمیراتی گروپ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ن لیگ کو چاہیئے کہ وہ دبئی، قطر اور کلیبری فونٹ مائیکروسافٹ میں سازشی تلاش کرے، شریف خاندان اب تک اسی کی دہائی میں رہ رہا ہے'۔

فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ 'چونکہ شریف خاندان خود سیاسی نظام کے خلاف ہونے والی ہر سازش کا حصہ رہے ہیں، اس لیے انہیں لگتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہورہا ہے اور اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے'۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ پاکستان میں فعال میڈیا، سول سوسائٹی اور آزاد عدلیہ کی موجودگی کے ہوتے ہوئے کوئی بھی جمہوری نظام کے خلاف سازش کی کوشش نہیں کرسکتا۔

ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق پی ٹی آئی کو توقع ہے کہ سپریم کورٹ پاناما پیپرز کیس کا فیصلہ آئندہ ہفتے میں سنادے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جے آئی ٹی کی رپورٹ مجرمانہ تحقیقات ہیں اور شریف خاندان انہیں سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کرسکتا، سپریم کورٹ اگر وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف کیس نیب عدالت کو بھجوادیتی ہے تو وہاں اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے'۔


یہ خبر 14 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں