فلم ریویو: دی بلیک پرنس

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2017
—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

غیرتقسیم شدہ ہندوستان پر،ایسٹ انڈیاکمپنی کے ناجائز قبضے کے بعد،یہاں کے مقامی لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی، 1857میں مسلمان اورہندو ایک ہوکرلڑے،جس کوہندوستانیوں نے جنگ آزادی اورانگریزوں نے غدرکہا۔

اسی طرزپرسکھوں نے بھی پنجاب کوانگریزوں سے واپس حاصل کرنے کی ایک ناکام کوشش کی،یہ فلم اسی جدوجہد کی داستان ہے۔ پنجاب کے آخری مہاراجہ اوررنجیت سنگھ کے بیٹے دلیپ سنگھ کی حقیقی زندگی سے متعلق،کہانی کو پردہ اسکرین کی زینت بنایاگیاہے۔

یہ فلم پاکستان،انڈیا،انگلینڈ،امریکا،،کینیڈا،نیوزی لینڈ سمیت پوری دنیا میں نمائش کے لیے پیش کردی گئی۔

کہانی

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

اس فلم کاموضوع بہت جاندارہے، ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط سے خود کو آزاد کروانے کے لیے جن علاقوں سے کوششیں ہوئیں،ان میں ایک پنجاب بھی تھا۔انگریزوں نے پنجاب کے خطے پر سب سے آخرمیں قبضہ کیاتھا،کیونکہ وہاں مضبوط حکومت موجود تھی،جس کی وجہ سے انگریزوں کی رسائی بہت دیر میں ممکن ہوئی۔

مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعدپنجاب ریاست محلاتی سازشوں کاشکارہوئی،جس کافائدہ انگریز کوپہنچا۔تخت پنجاب کاحقیقی وارث دلیپ سنگھ،کم عمرتھا،جس کو انگریزوں نے اپنی تحویل میں لے کر برطانیہ بجھوادیا۔وہیں اس کی پرورش ہوئی،تعلیم وتربیت کے مراحل طے ہوئی،حتیٰ کہ اس کامذہب بھی تبدیل کرکے سکھ مت سے عیسائیت کردیاگیا،مگرہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی پنجاب کاآخری مہاراجہ اورانگریزوں کامنہ بولا سیاہ فام شہزادہ اپنی جڑوں کی تلاش میں ماضی کھوجنے لگا،اپنی گمشدہ ماں کوتلاش کیااوراپنی جڑوں کوبھی،اس کے باوجود،فیصلہ کن مرحلے تک پہنچنے میں اس کو بہت وقت لگ گیا کیونکہ برطانیہ میں بھی اس کاخیال سگی اولادکی طرح رکھاگیا۔

اب اس کے سامنے دوراہاتھاکہ وہ سگے والدین کابدلہ لے اوراپنے لوگوں کو آزادی دلوائے یاپھر اپنے منہ بولے والدین اورسرزمین کے احسانات کے بوجھ تلے دفن رہے،اسی کشمکش پر مبنی اس فلم کی کہانی ہے،اسکرین پلے متاثرکن ہے،جس کو پنجابی اورانگریزی زبان میں بیان کیاگیاہے،البتہ کہیں کہیں کرداروں میں ہم آہنگی محسوس نہیں ہوئی،شاید اس کی وجہ موضوع کابے حد پھیلاؤ ہے۔

فلم سازی وہدایت کاری

یہ فلم امریکی پروڈکشن ہاؤس ”Brillstein Entertainment Partners“کاپروجیکٹ ہے اور”جے کھنا“اس کے شریک ایگزیکٹیو پروڈیوسرہیں۔

فلم سازی کے اعتبارسے یہ محتاط اندازمیں بنائی گئی فلم ہے،اس لیے کم خرچ میں بھی عکس بندی کے مقامات،موسیقی اوربین الاقوامی اداکاروں کے ساتھ یہ ایک اچھی فلم سازی کی کوشش ثابت ہوئی ہے۔اس فلم کے ہدایت کاربھارتی نژاد برطانوی اداکاراورہدایت ”کوی راز“ہیں،جنہوں نے انگلینڈ اورانڈیا میں اس فلم کی عکس بندی کی۔حیرت انگیز طورپرشہر لاہور اوراس کاشاہی قلعہ،اس فلم کی کہانی کامرکز تھا،جس کو صرف فلم کے پوسٹر پرہی دکھایاگیا،

پوری فلم میں لاہور کی کوئی جھلک تک نہیں ملی۔فلم کے موسیقارGeorge Kallisہیں،جنہوں نے عمدہ موسیقی دی،مگراس کادورانیہ کم تھا،جس کی وجہ سے بالخصوص کہانی کے پس منظر میں موسیقی کی بہت کمی محسوس ہوئی۔

پنجابی زبان میں گائے گئے دو گیت”چناں“اور”بیت جانیاں“بہت متاثرکن ہیں،جن کو فلم کے مرکزی کردار نبھانے والے ”ستیندرسرتاج“نے گایاہے اوربہت خوب گایاہے۔گلوکار کی حیثیت سے وہ فلم بینوں کو متاثر کریں گے۔

فلم میں بہت سارے مناظر نیم تاریکی اوراندھیرے کے شامل کیے گئے،جس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی۔کہانی کو فلیش بیک کے انداز میں عکس بند کیاگیا،مگرہدایت کار اتنے بڑے موضوع کو ٹھیک سے بیان نہ کرپائے،جس کی وجہ سے فلم کی کہانی سست روی کی شکار نظر آئی۔

اداکاری

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

فلم کامرکزی کردارمعروف انڈین پنجابی گلوکار”ستیندرسرتاج“نے اداکیاہے،اس کی واحد خوبی،جس کی وجہ سے شاید اس کو فلم کامرکزی کردار دیاگیا،وہ اس کا حقیقی مہاراجہ دلیپ سنگھ سے معمولی مشابہت ہونا ہے۔

اس فلم سے اداکاری کی ابتداکرنے والے ستیندرسرتاج اپنے کردار سے پوری طرح انصاف نہیں کرسکے،جس کی اس کردار میں اشدضرورت تھی،البتہ دیگر فنکاروں نے اپنی اپنی جگہ جم کر کردار نبھائے،بالخصوص ملکہ وکٹوریہ کاکردار کرنے والی Amanda Root اورمہاراجہ دلیپ سنگھ کی ماں کاکردار کرنے والی شبانہ اعظمیٰ نے اپنے کرداروں سے خوب انصاف کیا۔

یہ فلم بہت جذباتی موضوع کو بیان کررہی تھی،مگرجذبات کی وہ اتھل پتھل مرکزی کردار کے کمزور ہونے کی وجہ سے نہ ہوسکی،اس لیے کہانی دل میں پوری طرح اتربغیر ختم ہوگئی۔مرکزی کردار کے علاوہ دیگر فنکاروں کاانتخاب شاندار ہے،جس سے فلم میں حقیقی واقعات کی جھلک دکھائی دی۔

نتیجہ

—اسکرین شاٹ
—اسکرین شاٹ

یہ فلم چونکہ برصغیر پاک وہند کے ایک اہم خطے سے تعلق رکھتی ہے۔بالخصوص سکھ برادری کے لیے یہ ایک حساس اور دل سے قریب موضوع ہے،اس وجہ سے پوری دنیا میں موجود سکھ اس فلم کی نمائش کو کامیاب بنائیں گے۔

مغربی فلم سازی کے تناظر میں ہندوستانی تاریخ کے موضوع پر فلم بنانے کایہ اقدام بہرحال قابل تحسین ہے،جس کے لیے فلم ساز اورہدایت کار تعریف کے حق دار ہیں،چونکہ ا س فلم کے موضوع کا مرکز موجودہ پاکستان کاخطہ ہے،توہم پاکستانیوں کوبھی تاریخ کے اس پہلو سے روشناس ہونے کے لیے اس فلم کو ضرور دیکھناچاہیے۔

لکھاری سے ان کے اس ایمیل ایڈریس پر رابطہ کیا جاسکتا ہے [email protected]

تبصرے (1) بند ہیں

سید مہتاب شاہ جی Jul 24, 2017 02:27am
خرم سہیل آپ نے اتنا خوبصورت فلم ریویو لکھا ھے کہ اب یہ فلم کم ازکم میرے لیئے دیکھنی ضروری چکی ھے ،چونکہ میں نے گزشتہ کئی برس سے کوئی انٹرنیشنل فلم نہیں دیکھی،لیکن دابلیک پرنس کے بارے آپ کی قلم کے فیصلے کے بعد یہ بہت ضروری ھوگیا ھے کہ چونکہ ا س فلم کے موضوع کا مرکز موجودہ پاکستان کاخطہ ہے،توہم پاکستانیوں کوبھی تاریخ کے اس پہلو سے روشناس ہونے کے لیے اس فلم کو ضرور دیکھناچاہیے۔ !بہت شکریہ