لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قائم مقائم انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب عثمان خٹک کو مستقل آئی جی تعینات کرنے کا نوٹیفکیشن معطل کیے جانے کے بعد گریڈ 21 کے پولیس افسر کیپٹن(ر) عارف نواز کو آئی جی پنجاب تعینات کردیا گیا۔

کیبنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق گریڈ 21 کے پولیس افسر کیپٹن(ر)عارف نواز پنجاب پولیس میں اپنے فرائض انجام دے رہے تھے اور اب انھیں صوبائی پولیس افسر (پی پی او) تعینات کردیا گیا ہے۔

عارف نواز خان ایڈیشنل آئی جی پنجاب کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے اور آئی جی کے عہدے کے لیے پانچ دیگر افسران کے ساتھ فیورٹ تصور کیے جارہے تھے۔

پولیس ذرائع کے مطابق عارف نواز سابق آئی جی مشتاق سکھیر کے قریبی تھے اور انھوں نے مشتاق سکھیرا کی سرپرستی میں پنجاب پولیس میں آئی ٹی کے تحت اٹھائے گئے اقدامات میں سرگرم کردار ادا کرتے ہوئے پولیس میں اصلاحات کے لیے کام کیا۔

عارف نواز نے اس سے قبل ایڈیشنل آئی جی بلوچستان، کمانڈنٹ بلوچستان کانسٹیبلری، اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس ملتان، لودھراں، پاکپتن اور فیروز والا کے علاوہ ایس پی گجرانوالا اور راجن پور جبکہ ایس ایس پی ڈیرااسماعیل خان اور اور ڈی پی اور بہاولپور کے عہدے پر تعینات رہ چکے ہیں۔

عارف نواز نے اس کے علاوہ اسپیشل برانچ خیبرپختونخوا، اسپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی پنجاب، ڈی آئی جی ایڈمنسٹریشن فیصل آباد، ڈی آئی جی ٹریننگ پنجاب، ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز بلوچستان اور ریجنل پولیس افسر کوئٹہ کے طور پر خدمات انجام دی ہیں۔

یاد رہے کہ سابق آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا 12 اپریل کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہوگئے تھے جس کے بعد عثمان خٹک کو قائم مقام آئی جی تعینات کردیا گیا تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پنجاب حکومت کو دی جانے والی تیسری ڈیڈلائن ختم ہونے سے صرف ایک دن قبل 17 جولائی کو [کیپٹن (ر) عثمان خٹک کو صوبائی پولیس آفیسر (پی پی او) تعینات کیا گیا تھا۔

قائم مقام آئی جی کی مستقل آئی جی کے طور تعیناتی کو ایک شہری محمد رزاق نے لائی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کے بعد عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عثمان خٹک کو آئی جی پنجاب کے نوٹیفکیشن کو معطل کردیا تھا۔

درخواست گزار کے وکیل سعد رسول نے موقف اختیار کیا تھا کہ نیشنل پولیس سیفٹی کمیشن کے غیر فعال ہونے کے باوجود قائم مقائم آئی جی پنجاب عثمان خٹک کی مستقل آئی جی کے عہدے پرتعیناتی کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس آرڈر کے تحت آئی جی پنجاب کی تعیناتی سے قبل نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کی سفارشات ضروری ہیں جبکہ آئین اور ملکی قوانین کے تحت صوبے میں قائم مقام آئی جی کو مستقل طور پر تعینات نہیں کیا جا سکتا۔

جس پر پنجاب حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 'گورنر پنجاب نے ترمیمی آرڈیننس جاری کردیا ہے، آرڈیننس کے تحت اب آئی جی پنجاب کی تعیناتی کے لیے نیشنل پبلک سیفٹی کمیشن کی سفارشات ضروری نہیں جبکہ حکومت پنجاب قائم مقائم آئی جی پنجاب کو مستقل آئی جی کے عہدے پر تعینات کرچکی ہے'۔

سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ 'نئے آئی جی کی مدت ملازمت 3 ماہ چند دن باقی رہ گئی ہے'۔

سرکاری وکیل کے دلائل پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'بادی النظر میں لگتا ہے کہ حکومت عدالت کے ساتھ مذاق کررہی ہے، مستقل آئی جی پنجاب کی ملازمت قانون کے تحت 3 سال ہونی چاہیے'۔

چیف جسٹس سید منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ 'پنجاب حکومت نے بظاہر توہین عدالت کی ہے، عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے آئی جی پنجاب کی تعیناتی سے قبل مشاورت کیوں نہیں کی؟'

جس کے بعد عدالت نے احکامات کی خلاف ورزی پر عثمان خٹک کی آئی جی پنجاب کے عہدے پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے کیس کی سماعت کو 26 جولائی تک کے لیے ملتوی کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں