بیسویں صدی میں یوں تو بے شمار جنگیں لڑیں گئیں، مگر جنگ عظیم اول اور دوم کبھی نہ بھلائی جا سکیں گی۔

فلم کی اسکرین ہو، چاہے صحافیوں کے تجزیے یا پھر ادیبوں کا تخلیق کردہ ادب ہو، یہ دونوں عظیم جنگیں موضوع بنتی ہیں۔ پاکستان میں رواں ہفتے ریلیز ہونے والی فلم ’’ڈنکرک‘‘ بھی ایسا ہی ایک موضوع ہے۔

جس میں جنگ عظیم دوم کے ایک محاذ کو عکس بند کیا گیا ہے۔ 2017 جولائی سے ستمبر تک پوری دنیا میں، یہ فلم بالترتیب ریلیز ہو رہی ہے۔ لاکھوں فوجیوں کی موت سے محاذ آرائی اور زندگی کو جیت لینے کی جدوجہد کو فلم کے پردے پر انتہائی خوبصورتی اور مہارت سے دکھایاگیا ہے۔

کہانی

—پرومو فوٹو
—پرومو فوٹو

اس فلم کے کہانی نویس ’’کرسٹوفرنولان‘‘ ہیں، جو اس فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی ہیں۔ یہ فلم 1958میں اسی نام سے ، ایک کتاب کو بنیاد بنا کر لکھی گئی تھی، مگر موجودہ فلم کی کہانی زیادہ اچھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فلم ریویو: دی بلیک پرنس

یہ کہانی جنگ عظیم دوم کے ایک حقیقی معاملے پر مبنی ہے، جب فرانس کے ایک ساحلی شہر ’’ڈنکرک‘‘ میں فرانس، بیلجیم اور برطانیہ کی فوجیں، جرمن فوج کے گھیرے میں آگئی تھیں۔

انہیں کس طرح محفوظ طورسے نکالنے کی سعی کی گئی، اس میں کتنی جانیں کام آئیں، یہ خطرناک معرکہ کیسے سر ہوا، اس پوری صورتحال اورفضا کو کہانی نویس نے عمدہ طریقے سے بیان کیا۔ فوج کے بری، بحری، اور فضائی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے مناظر لکھے۔

ڈنکرک کے ساحلی علاقے میں 9دنوں پر مشتمل، اس جنگی محاذ پر، فوجیوں نے کیا قیامتیں جھیلیں، جان سے مارنے والے ماحول میں، جانیں بچانے والے بھی دکھائی دیے، نیکی اور بدی کے رنگ ، فلم کی کہانی پر غالب رہے۔

کرداروں میں بھی جرنیل، عام فوجی، اورآلات حرب کے ساتھ کٹھن حالات کی منظر کشی خوب خوب کی گئی ہے۔ کہانی کی ایک اور عمدہ بات مکالمے کم اورخاموشی کی گفتگو زیادہ ہے۔

کہانی نویس اپنے تجربے میں پوری طرح کامیاب رہے، یہی وجہ ہے کہ فلم بین ابتدا سے آخر تک اس جنگ میں خود کو شامل محسوس کرتے ہیں۔

فلم سازی و ہدایت کاری

—پرومو فوٹو
—پرومو فوٹو

اس فلم میں چار ملکوں کا اشتراک ہے، جن میں امریکا، برطانیہ، فرانس اور بیلجیم شامل ہیں۔ 100ملین ڈالرز کے بجٹ کی فلم نے، اپنے ڈسٹری بیوٹر’’وارنربرادر‘‘ کے تعاون سے ، با آسانی اپنی رقم منافع کے ساتھ وصول کرلی ہے، بوکس آفس پر یہ تناسب مزید بلند ہورہا ہے، اس کی وجہ فلم پروڈکشن کا معیاری ہونا ہے، ایچ ڈی اور ٹو ڈی معیار کے ساتھ فلم کے تکنیکی معاملات کو بھی پیشہ ورانہ طریقے سے برتا گیا ہے۔ فلم کی ایڈیٹنگ، موسیقی، سینما ٹوگرافی ،ساؤنڈ افیکٹس اور ویژول افیکٹس نے فلم کو چار چاند لگادیے۔

سیٹ ڈیزائننگ اور بیک گراؤنڈ مناظر میں معمولی غلطیاں کی گئی ہیں مگر وہ فلم کی کہانی کے جاندار ہونے کی وجہ سے محسوس کم کم ہوتی ہیں، جس طرح ڈنکرک میں دکھائے گئے گھر،ساحل کے کچھ علاقے اورگاڑیاں ایسی ہیں، جو جنگ عظیم دوم کے وقت نہیں ہوا کرتی تھیں، مگر وہ اس فلم میں دکھائی گئیں، بنیادی طورپرتکنیکی ضرورتوں کا مکمل خیال رکھا گیاہے۔

مزید پڑھیں: یلغار ریویو: بہترین ایکشن اور کمزور کہانی

اسی طرح بی بی سی انگلش (انڈیا) کے مطابق، اس جنگی محاذ میں کئی ہزار ہندوستانی فوجی بھی شریک ہوئے تھے، ان کا تذکرہ نہیں ہوا،انڈین مورخ یاسمین خان نے اپنی کتاب’’The Raj at War‘‘ میں اس کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

یہ پہلو کو نظر انداز کرنا بھی بہرحال ایک تکنیکی غلطی ہے اور ایک ایسے ہدایت کار سے اس غلطی کی توقع اس لیے نہیں کی جا سکتی تھی، کیونکہ اس نے فلم کے ہر پہلو کو خود سے جانچا، جس طرح انہوں نے برطانیہ سے فرانس کے اس شہر ڈنکرک تک کا سمندری سفر کیا اور حالات کا تصوراتی جائزہ لے کر کہانی کو عکس بند کیا۔

اداکاری

—پرومو فوٹو
—پرومو فوٹو

فلم کی کہانی میں مکالمے کم ہونے کی وجہ سے اداکاروں پر یہ بھاری ذمے داری آن پڑی کہ وہ اپنے چہرے کے تاثرات اور جسمانی حرکات وسکنات سے کردار کی عکاسی کریں، جس میں اداکاروں کی اکثریت کامیاب بھی رہی۔

فلم میں تقریباً 12سے 14مرکزی کردار ہیں،جن کو تمام اداکاروں نے خوبصورتی سے نبھایا، مگر سب سے اہم کردار ،جس کے ذریعے کہانی آگے بڑھتی رہتی ہے،وہ مرکزی کردار Fionn Whiteheadکا ہے۔

دیگراداکاروں میں Mark Rylance، Tom Hardy، Cillian Murphy، Kenneth Branagh، Harry Stylesاور دیگر شامل ہیں۔ ایک بہت تعداد ایکسٹراز کی تھی، ان کی محنت اورمہارت سے بھی فلم کے مناظر میں جان پڑی۔

جنگی جہاز، کشتیاں، بحری جنگی بیڑے، جنگی گاڑیاں اور دیگر آلات حرب سے ڈنکرک کا محاذ ایک بار پھر فلم کے پردے پر زندہ کردیا۔

اس میں جرمنی کی فوج کاتذکرہ صرف چند مختصر مناظر اور مکالموں کی حد تک رہا ، کہانی کی ساری توجہ فوجی پناہ گزینوں پر تھی،جن کو وہاں سے محفوظ طریقے سے نکالنے کے لیے کوششیں ہورہی تھیں۔

کسی ایک اداکار کو یہاں اداکاری کی داد دینا ناانصافی ہوگی کیونکہ ہر کردار دوسرے کردار کے ساتھ ملکر جاندار اور جاذب نظر بنا، اس لیے فلم کی پوری کاسٹ اور تکنیکی عملہ تعریف کا حق دار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’دی ممی‘ ریویو: ٹام کروز اور ممی کی کمزور جنگ

نتیجہ

—پرومو فوٹو
—پرومو فوٹو

یہ فلم اپنی مضبوط پروڈکشن کی وجہ سے کامیابیاں حاصل کررہی ہے،امید ہے کہ یہ فلم بہت سارے اعزازات بشمول آسکر ایوارڈ حاصل کرے گی۔

دوسری جنگ عظیم کا یہ محاذ ،جہاں جنوبی ایشیا، بالخصوص ہندوستانی فوجیوں نے بھی حصہ لیا،جن میں مسلمان، ہندو اورسکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے کئی ہزار فوجی شامل تھے، اگر ان کا ذکر بھی ہوجاتا، توکہانی اورفلم میں مزید جان پڑجاتی۔

اس فلم نے جہاں جنگی مظالم اورنقصانات کا احاطہ کیا ہے،وہی یہ بھی یاد دلایاہے،جنگیں انسانیت کے لیے صرف اورصرف تباہی لاتی ہیں، ان سے بچنا چاہے اور جنگی تاریخ کیسے بیان کی جاتی ہے۔

پاکستانی فلم سازوں کو بھی اس فلم کے ذریعے سیکھناچاہیے، بالخصوص کہانی نویسی کی بے حد ضرورت ہے، جس کو اس فلم میں بے حد مہارت سے پیش کیاگیاہے۔ایک اچھی فلم ، جس کو دیکھنے سے آپ کا وقت ضایع نہیں ہوگا، کچھ دیر کے لیے آپ خود کو ڈنکرک کے محاذ پر موجود پائیں گے ۔

لکھاری سے ان کی ای میل [email protected] پر رابطہ کریں

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں