اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف ممنوعہ ذرائع سے پارٹی فنڈنگ کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ حساب الیکشن کمیشن نے لینا ہے۔

خیال رہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف الیکشن کمیشن (ای سی پی) میں اثاثے اور آف شور کمپنیاں ظاہر نہ کرنے سمیت بیرون ملک سے حاصل ہونے والے مبینہ فنڈز سے پارٹی چلانے کے الزامات پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاء بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے پارٹی فنڈنگ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں الیکشن کمیشن ممنوعہ ذرائع کی تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتا؟

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کو پارٹی فنڈنگ کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 'پولیٹیکل پارٹی آرڈر کی شق 13 کے تحت سیاسی جماعت ہر سال اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنے کی پابند ہے تاہم الیکشن کمیشن پارٹی فنڈنگ کا آڈٹ نہیں کرسکتا'۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 'پولیٹیکل پارٹی آرڈر کی شق 17 کی ذیلی شق 3 کے تحت ہر سیاسی جماعت فنڈز کی تفصیلات فراہم کرنے کی پابند ہے جبکہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو کلیئر قرار نہیں دیا'۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'اگر کوئی سیاسی جماعت اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کرنے کے بعد فنڈز وصول کرے تو کیا الیکشن کمیشن پوچھنے کی پابند نہیں ہوتی؟'۔

جس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ قانون میں اس بارے میں کچھ نہیں لکھا ہوا۔

اس موقع پر جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ کوئی خود سے نہیں بتائے گا کہ اس نے ممنوعہ فنڈنگ لی۔

انور منصور نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر کمیشن بنا سکتی ہے اور سیاسی جماعت کے نجی اکاؤنٹس کی تشہیر نہیں کی جاسکتی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات مسترد کردیئے

جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ سیاسی جماعت کے اکاؤنٹس نجی کیسے ہو سکتے ہیں؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 'قانون کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے اپنا حساب دینا ہے اور یہ حساب الیکشن کمیشن نے لینا ہے'۔

جس کے بعد عمران خان کے وکیل کے دلائل مکمل ہوگئے۔

حنیف عباسی کے وکیل کے دلائل

حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات جمع کرائی گئی ہیں۔

غیر ملکی فنڈنگ پر جمع کرائی گئی دستاویزات کا ہر ایک صفحہ خود تیار کیا گیا ہے اور پی ٹی آئی نے اصل فنڈز سے کم فنڈز ظاہر کیے ہیں۔

اکرم شیخ کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم نے دستاویزات پرموجود ایک ایک نام کا جائزہ لیا ہے وہ فارا ریکارڈ پر موجود نہیں'۔

جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا ہم فارا کو معلومات نہ دینے پر اس ریکارڈ کو بوگس کہہ دیں؟'۔

اکرم شیخ نے عدالت کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ '100 فیصد یہ دستاویزات گمراہ کن اور جعلی ہیں'۔

حنیف عباسی کے وکیل کا کہنا تھا کہ 'پی ٹی آئی نے اپنے جواب میں کہا کہ انہوں حلال کو حرام سے الگ رکھا، حرام فنڈنگ انتظامی طور پر خرچ کی گئی جبکہ حلال فنڈنگ پاکستان بھیجنے کا مؤقف دیا گیا ہے'۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ جواب میں حرام نہیں ممنوعہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: عمران خان کا سپریم کورٹ میں منی ٹریل مکمل نہ ہونے کا اعتراف

جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جواب میں کہا گیا ہے کہ قابل اعتراض فنڈز باہر خرچ کیے جبکہ پاکستان میں آنے والے فنڈز جائز ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نہ کسی حد تک ممنوعہ فنڈنگ لی گئی۔

جسٹس فیصل عرب نے اکرم شیخ سے سوال کیا کہ وہ عدالت سے نہ جماعت پر پابندی مانگ رہے ہیں اور نہ ہی فنڈز کی ضبطگی؟

جس پر اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کے سامنے مختصر کیس لائے ہیں اور صرف عمران خان کی نااہلی چاہتے ہیں۔

جس کے بعد عدالت نے پی ٹی آئی کی غیر ممنوعہ فنڈنگ اور عمران خان نااہلی کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

حنیف عباسی کا جواب الجواب

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی نے عمران خان کی جانب سے 24 جولائی کو جمع کرائے گئے جواب کا جواب الجواب سپریم کورٹ میں جمع کرایا۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے پی ٹی آئی نے حنیف عباسی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے 700 سے زائد صفحات پر مشتمل متعلقہ تفصیلات عدالت میں جمع کرائی تھیں جن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ حنیف عباسی کے الزامات بدنیتی پر مبنی ہیں۔

پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ فارن ایجنٹ کمپنی کو ذرائع سے ملنے والے فنڈز ممنوعہ یا غیرملکی نہیں جبکہ درخواست گزار نے اپنے الزامات ثابت کرنے کے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے۔

اپنے جواب میں حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی دستاویزات درست نہیں، کاغذات میں تضاد ہے اور نامکمل دستاویزات مقررہ مدت کے بعد جمع کروائی گئیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں