پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجرجنرل آصف غفور نے 15 جولائی 2017 کو شروع ہونے والے آپریشن خیبر 4 کی تکمیل کا اعلان کرتے ہوئے سول، ملٹری تقسیم کے تاثر کو رد کردیا۔

پریس کانفرنس کے دوران میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ'ہم نے وادی راجگال اور شوال میں زمینی اہداف حاصل کرلیے'۔

ان کا کہناتھا کہ جن علاقوں میں آپریشن خیبر 4 کیا گیا وہ دشوار گزار علاقے تھے۔

آپریشن خیبر فور کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اس آپریشن کے دوران 52 دہشت گرد ہلاک جبکہ 31 دہشت گرد زخمی اور چار نے ہتھیار ڈال دیے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی بتایا کہ آپریشن خیبر فور میں پاک فوج کے 2 سپاہی شہید اور 6 زخمی ہوئے۔

انہوں نے بتایا کہ آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے قبضے سے برآمد کیے جانے والے سامان میں بارودی سرنگ بنانے والا سامان ملا ہے جس پر ’میڈ ان انڈیا‘ لکھا ہوا تھا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس موقع پر آپریشن کے حوالے سے ایک ڈاکیومنٹری دکھائی۔

آپریشن ردالفساد کی تفصیلات


  • 22 فروری سے تاحال پورے پاکستان میں ایک لاکھ 24 ہزار سے آپریشن
  • 15 جولائی سے تاحال 3 ہزار 300 سے خفیہ آپریشن (IBOs)

بلوچستان

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 'بلوچستان میں ایف سی نے 12 اگست کو آپریشن کیا اور بھاری مقدار میں اسلحہ وبارود برآمد کرلیا جو 14 اگست کو یوم آزادی کی تقریبات کے دوران پر استعمال ہونا تھا'۔

سندھ

سندھ میں آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'پاکستان رینجرز نے سندھ اور بالخصوص کراچی میں آپریشن کیے اور 2013 سے 2017 کے جرائم کے واقعات میں واضح حد تک کمی ہوئی اور 2017 میں دہشت گردی کا ایک واقعہ ہوا تاہم سماجی جرائم خالصتاً پولیس کی حد میں آتے ہیں جس میں اتنی کمی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے کیونکہ اس کا تعلق پولیس کی صلاحیت پر ہے پولیس مضبوط ہوگی تو اسٹریٹ کرائم بھی وقت کے ساتھ کم ہوں گے'۔

پنجاب

ان کا کہنا تھا کہ 'پنجاب میں رینجرز نے 1728 خفیہ آپریشن کئے اور اسلحہ بھی برآمد کیا گیا ہے، خیبر پختونخوا میں بارڈر منیجمنٹ مضبوط کرلی ہے اور دہشت گرد افغانستان سے آکر حملہ کرتے تھے لیکن اب وہاں ہماری موجودگی مضبوط ہوئی ہے اس لیے ان کے حملوں کو ناکام بنا دیے جاتے ہیں'۔

خیبرپختونخوا

انھوں نے کہا کہ 'افغانستان سے سرحد پار کرنے کی کوشش ضرور ہوتی ہے اور اب بھی ہوتی ہے لیکن کامیاب نہیں ہوتے اور 2017 میں اب تک 250 سرحد پار حملے ہوئے ان میں سے کسی میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوئے اور 13 اور 14 اگست کی درمیانی شب 8 سرحد پار حملے کئے گئے'۔

قبائلی علاقے (فاٹا)

قبائلی علاقوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'آپریشن ہم مکمل کرچکے ہیں اور اب ترقیاتی کام ہورہے'۔

'ملک میں واضح فرقہ وارانہ فساد نہیں'

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 2013 میں راولپنڈی میں سنی مسجد پرحملہ کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری شیعہ تنظیم نے قبول کیا تھالیکن آئی ایس آئی نے اس پر بہت کام کیا اور نیٹ ورک کو بے نقاب کیا اوردہشت گرد کو گرفتار کیا اور یہ دہشت گرد بھی اسی مسلک سے تعلق رکھتے تھے جس مسلک کی یہ مسجد تھی۔

ڈی ڈجی آئی ایس پی آر نے گرفتار دہشت گرد کی ویڈیو بھی دکھائی جس میں وہ اعتراف کررہا ہے کہ انھوں نے محرم کے دوران کالے کپڑے پہن کر وہاں پر کارروائی کریں۔

انھوں نے کہا کہ 'فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی کوشش کی گئی جس کا رابطہ این ڈی ایس را اور کلبھوشن یادیو کے نیٹ ورک سے ملتا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'شیعہ سنی فساد وہاں سے شروع نہیں ہوا جہاں سے یہ پاکستان کے بدخوا اور دشمن شروع کرنا چاہتے تھے'۔

وزیراعلیٰ پنجاب کو نشانہ بنایا جانا تھا

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ لاہور میں 'ارفع کریم ٹاور کا واقعے کی خفیہ خبر تھی اس پر کام ہورہا تھا اور اس دن وزیراعلیٰ کا دورہ بھی طے تھا اور نشانہ بھی وزیراعلیٰ پنجاب تھے لیکن عین وقت پر ان کا منصوبہ تبدیل ہوا اور انھیں پولیس کو نشانہ بنانے کا حکم ملا تھا'۔

انھوں نے کہا کہ' اس نیٹ ورک پر مزید کام کیا گیا تو اور بھی خودکش بمبار تھے جنھوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کو نشانہ بنانا تھا لیکن ان کے حوالے سے تفصیلات اس لیے نہیں بتائیں گے کیونکہ ہمیں ان سے تفتیش جاری ہے'۔

مزید پڑھیں:لاہور: فیروز پور روڈ پر دھماکا، 26 افراد جاں بحق

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ یہ پاکستان پوری قوم کا ہے، 59غیرمسلم پاکستانیوں نے دفاع وطن کی خاطرقربانیاں دیں، ہم سب پاکستانی ہیں اورمل کرملک کادفاع کریں گے۔

گرفتار دہشت گردوں کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں میں کیس وفاقی حکومت بھیجتی ہے اس لیے دہشت گردوں کے کیسزفوجی عدالتوں میں بھیجنےکافیصلہ حکومت نےکرنا ہے۔

سابق صدر پرویزمشرف کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے 4 دہائیاں پاک فوج میں گزارے اور اب وہ ریٹائر ہوچکے ہیں اور اپنے تجربے کی بنیاد پر بات کرتے ہیں اور وہ آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر کے طور پر بیان دیتے ہیں وہ سیاسی رہنما کی حیثیت سے بیان دیتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ہیں اور فوج کی جانب سے جو بھی پالیسی بیان ہوگا وہ جنرل باجوہ دیں گے'۔

چیئرمین سینیٹ کے منصوبے پر فیصلہ کیا جائے گا

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 'چیئرمین سینیٹ کی تجویز میڈیا میں آیا ہے آرمی ریاست کا ایک جزو ہے اور حصہ ہے اس لیے ریاست کے حصہ کے طور پر وفاقی حکومت جو فیصلہ اور منصوبہ دیتی ہے تو پاک آرمی فیصلہ سازی میں حصہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے پاک فوج کا جو بھی حصہ ہوگا وہ دے گی'۔

ان کا کہنا تھا کہ جب اس حوالے سے پروپوزل آئے گا تو فیصلہ کیا جائے گا۔

انھوں نے سول ملٹری اختلاف رائے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سویلین اور ملٹری میں کوئی تقسیم نہیں ہے کچھ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن اس کو تقسیم سے تعبیر نہیں کرنی چاہیے۔

کشمیر کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر واضح موقف رکھتاہے، کشمیریوں کی اخلاقی اورسفارتی حمایت جاری رکھیں گے۔

انھوں نے واضح کیا کہ جدوجہد آزادی کشمیر کاتعلق دہشت گردی سےنہیں ہے اور حزب المجاہدین کے حوالے سے امریکی فیصلے پر دفتر خارجہ بیان دے چکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں