کراچی: پاکستان میں زیرِ زمین پانی کی آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے جسے حل کیے جانے کی فوری ضرورت ہے تاہم حالیہ دنوں میں زیرِ زمین پانی میں آرسینک (سنکھیا) کی بھاری مقدار کی موجودگی کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ میں ماہرین کئی نقائص کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ رپورٹ میں ’مجموعی طور پر اضافی تخمینہ‘ لگایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ ’ایواگ‘ کے نام سے مشہور سوئس ادارے ’سوئس فیڈرل انسٹیٹیوٹ آف ایکواٹک سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘ کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان کی 5 کروڑ سے زائد آبادی زہریلے کیمیائی عنصر ’آرسینک‘ پر مشتمل زیر زمین پانی استعمال کرنے کے خطرے سے دوچار ہے۔

تاہم آغا خان یونیورسٹی کے محکمہ کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ظفر فاطمی کے مطابق یہ رپورٹ ’مجموعی اضافی تخمینہ‘ ہے جبکہ اس کے طریقہ کار کے حوالے سے بھی کئی خدشات موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی سابقہ رپورٹ حالیہ رپورٹ کے نتائج کی تصدیق نہیں کرتی، جس میں آدھے سے زائد نمونوں میں آرسینک کی مقررہ حد سے زائد موجودگی کا دعویٰ کیا گیا ہے‘۔

مزید پڑھیں: '5 کروڑ پاکستانی آرسینک ملا زہریلا پانی پینے پر مجبور'

انہوں نے کہا ’دوسری بات یہ ہے کہ اگر پاکستان کے نصف آبی ذخائر آلودہ ہیں تو انسانی صحت پر منفی اثرات کی شرح بھی اس کے متناسب ہونی چاہیے‘۔

پروفیسر ظفر فاطمی نے ڈان کو بتایا کہ ’اس تحقیق کے لیے زیادہ تر نمونے دریائے سندھ کے کنارے موجود علاقوں سے اکھٹے کیے گئے، جہاں آلودگی زیادہ ہے تاہم ان نتائج کا قیاس پاکستان کی کُل آبادی کے لیے کردیا گیا‘۔

ریسرچ کا طریقہ کار

ریسرچ کے طریقہ کار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ محققین نے جیوگرافکل سیمپلنگ کے لیے ملک کو ’1 کلومیٹر بٹا ایک کلومیٹر‘ کے علاقے میں تقسیم کیا لیکن نقشے میں صرف اُن علاقوں کا انتخاب کیا گیا جو دریا کے کنارے موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی کو فراہم کیا جانے والا 91 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں

خیرپور کے علاقے میں اپنی ٹیم کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے پروفیسر فاطمی کا کہنا تھا کہ یہ ضلع دریائے سندھ کے کنارے واقع ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 'ڈھائی ہزار نمونوں میں سے دریا کے قریبی علاقوں سے اکھٹا کیے گئے نمونے آلودہ پائے گئے جبکہ دیگر علاقوں سے لیے گئے صرف ایک یا دو نمونے ایسے تھے جو آلودہ تھے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’زیر زمین پانی میں آرسینک کی جغرافیائی تقسیم خاصی دلچسپ ہے، ایک جغرافیائی علاقے میں آپ کو آلودہ کنوؤں کے نزدیک پانی کے صاف کنویں بھی مل جائیں گے، لہذا ایک دو نمونوں کی بنیاد پر ایک کلومیٹر بٹا ایک کلومیٹر علاقے کو آلودہ قرار دینا درست نہیں‘۔

پروفیسر فاطمی کے مطابق آرسینک کے انسانی صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے آغا خان یونیورسٹی کی جانب سے صرف ایک تحقیق کی گئی ہے جس میں آرسینک سے جلد پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’صرف وہ پانی جس میں 100 پارٹس پر بلین (پی پی بی) سے زائد آرسینک کی مقدار موجود ہو اس سے متاثرہ افراد میں جلدی مسائل پائے گئے اور اس قدر آلودہ پانی سے بہت کم آبادی متاثر تھی‘۔

دوسری جانب پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کے ڈاکٹر غلام مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ وہ اس رپورٹ سے مکمل طور پر اتفاق نہیں کرسکتے کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ اس کے لیے نمونے کس طرح اکھٹا کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب اور سندھ کے کئی علاقوں میں آرسینک سے آلودہ پانی موجود ہے لیکن اگر اس تحقیق میں صرف متاثرہ علاقوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی تو قدرتی طور پر نتائج یہی ہوں گے‘۔

پنجاب میں آرسینک آلودگی پر بات کرتے ہوئے لاہور کونسل کے ایک اور رکن ضمیر احمد کا کہنا تھا کہ حکومت نے’صاف پانی منصوبہ‘ شروع کر رکھا ہے جس کا مقصد اس مسئلے کا حل بھی ہے۔

سطح پر موجود پانی میں آرسینک؟

ڈاکٹر محمد عذیر خان اور ڈاکٹر فہیم صدیقی کا ماننا ہے کہ ملک کا سطح پر موجود پانی بھی پینے کے قابل نہیں۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی کے ڈاکٹر عذیر خان نے اُس تحقیق کا حوالہ دیا جو ان کی ٹیم نے حال ہی میں کی تھی۔

اس تحقیق کے مطابق گلگت بلتستان کے شمالی علاقوں سے لے کر زیریں سندھ کے علاقے سیسے اور آرسینک سے آلودہ ہیں۔


یہ خبر 26 اگست 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں