اسلام آباد: سینیٹ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان جنوبی ایشیاء پالیسی کے تناظر میں تیار کی گئی رپورٹ متفقہ طور پر منظور کرلی.

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے سفارشات پاکستان کے تمام سفارت خانوں کو بھجوانے کے ساتھ ساتھ آئندہ اجلاس میں پروگریسیو رپورٹ بھی طلب کرلی۔

رضا ربانی کے مطابق سفارشات کی تیاری کے عمل میں وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی جبکہ یہ سفارشات عوام کی خواہشات اور امنگوں کی عکاس ہیں۔

سینیٹ میں بیان دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایک بار پھر ثابت ہوا کہ قومی سلامتی کے معاملات پر پارلیمنٹ فوری رد عمل دیتا ہے‘۔

سینیٹ کی منظور کردہ پالیسی گائیڈ لائنز میں امریکی صدر کی افغان حکمت عملی کو یک طرفہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی پالیسی کی ناکامی کی تمام ذمہ داری پاکستان پر ڈالی گئی ہے جبکہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اعلیٰ سطح کے رابطے کے باجود پالیسی کے اعلان کے وقت پاکستان کے نقطہ نظر کو نظر انداز کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا سےاربوں ڈالر نہیں، صرف مونگ پھلیاں ملیں: نثار کا ٹرمپ الزامات پر ردعمل

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں کارروائیوں میں ملوث دہشت گردوں کی افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے متعلق اسلام آباد کے تحفظات کو امریکا کی جانب سے نظرانداز کیا گیا۔

امریکی صدر کی جانب سے بھارت کو افغانستان میں اہم کردار ادا کرنے کی دعوت پر گائیڈ لائنز میں کہا گیا کہ بھارت کے افغانستان میں کردار میں اضافے سے نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں عدم استحکام آئے گا۔

سینیٹ کی منظور کردہ پالیسی گائیڈ لائنز میں کہا گیا کہ دفتر خارجہ، امریکی سفیر کو طلب کرے اور انہیں پاکستان کے تحفظات اور سینیٹ تقاریر کے حوالے سے آگاہ کرے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر خارجہ کا دورہ امریکا ملتوی کیا گیا تاہم اب جب وزیر خارجہ امریکا کا دورہ کریں تو پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں اور کردار (شراکت) کے حوالے سے حقائق نامہ لے کر جائے۔

اس حقائق نامے میں نیٹو اور امریکا کو دی جانے والی زمینی اور فضائی سہولیات شامل کی جائیں، ساتھ ہی امریکا کی امداد کا حقائق نامہ جاری کیا جائے کہ پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈ کی صورت میں کتنی رقم واپس ملی اور پاکستان کو اس جنگ میں کتنا نقصان ہوا۔

مزید پڑھیں: نئی افغان پالیسی: ٹرمپ کا پاکستان پر دہشت گردوں کو پناہ دینےکاالزام

پالیسی میں کہا گیا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور بالخصوص افغانستان اور خطے میں امن اور استحکام کے حوالے سے تعمیراتی تعلقات کا خواہش مند ہے۔

مزید کہا گیا کہ تمام شراکت داروں سے مشاورت کے بعد پاکستان کے واضح قومی مؤقف کے ساتھ ایک قومی نیشنل پالیسی پیپر بنایا جائے جبکہ دوست ممالک کے ساتھ مشاورت سے علاقائی رد عمل تیار کیا جائے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا مؤقف بھرپور انداز میں اٹھایا جائے۔

سینیٹ کی پالیسی گائیڈ لائنز کے مطابق پاکستان بھی جنوبی ایشیاء پالیسی تیار کرے جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پرامن کوشش ہونی چاہیے جہاں بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہا یے۔

گائیڈ لائنز میں کہا گیا کہ افغانستان میں فوج میں اضافہ کرکے امریکا کو پاکستان اور خطے پر نظر رکھنے کے لیے بیس ملے گا جبکہ اس سے نہ صرف پاکستان اور خطے میں عدم استحکام بھی آئے گا بلکہ یورپ پر بھی مفی اثرات مرتب ہوں گے ، کیونکہ اس سے دہشت گردی اور انتہا پسندی میں اضافہ ہو گا۔

واضح رہے کہ 22 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان، پاکستان اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے افغانستان میں مزید ہزاروں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کا عندیہ دیا اور اسلام آباد پر دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام دہراتے ہوئے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا تھا۔

امداد میں کمی کی دھمکی دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم پاکستان کو اربوں ڈالر ادا کرتے ہیں مگر پھر بھی پاکستان نے اُن ہی دہشت گردوں کو پناہ دے رکھی ہے جن کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے، ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے‘۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے اس رویے کو تبدیل ہونا چاہیے اور بہت جلد تبدیل ہونا چاہیے‘۔

دوسری جانب جنوبی ایشیاء میں اہم اتحادی بھارت سے متعلق ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’امریکا افغانستان میں استحکام کے لیے بھارتی کردار کو سراہتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت، امریکا کے ساتھ تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی اقتصادی معاونت اور ترقی کے لیے مزید کام کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں