اگرچہ حکومت وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے اصلاحاتی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دے چکی ہے، لیکن فاٹا کی خواتین حالیہ تجاویز میں مردوں کو زیادہ نمائندگی دینے پر اپنے حقوق کے لیے ایک مرتبہ پھر عملی طور پر کوشاں ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب خیبر پختونخوا کی حکومت، فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے اور اصلاحات نافذ کرنے کے مطالبے پر ڈٹی ہوئی ہے، وہیں فاٹا کی خواتین پر مشتمل ایک کمیٹی نے بنیادی حقوق، سہولیات اور فیصلہ سازی میں شمولیت سے محرومی جیسے اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے نئی جدوجہد کا آغاز کیا ہے۔

اس کمیٹی کی سربراہی کرنے والی ایک سماجی کارکن ثمینہ آفریدی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد فاٹا میں خواتین کو نا صرف منظم کرنا، بلکہ انہیں ان کے بنیادی حقوق فراہم کرنا بھی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے ثمینہ آفریدی نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے اب تک جتنی بھی اصلاحاتی کمیٹیاں قائم کی گئیں ان میں صرف مردوں کی نمائندگی تھی جہاں ایک بھی خاتون موجود نہیں تھی اور اگر مردوں کی بات کی جائے تو ان میں بھی فاٹا سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد کم رہی ہے۔

مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات کے نفاذ میں تاخیر پر دھرنے کی دھمکی

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارا مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی کمیٹی بنائی جائے جہاں خواتین اپنی آواز بلند کرسکیں، جس سے ان کے اصل مسائل بھی سامنے آئیں گے'۔

ثمینہ آفریدی نے بتایا کہ فاٹا میں تو ہر ایک کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے، لیکن خواتین کی صورتحال بہت زیادہ ابتر ہوچکی ہے، کیونکہ جو نظام وہاں رائج ہے، اُس میں ان کے لیے تعلیم کا حصول ممکن نہیں اور اسی وجہ سے وہ کئی شعبوں میں پیچھے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر 1998 کی مردم شماری کے لحاظ سے دیکھیں تو فاٹا میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور یہی ایک بنیادی وجہ ہے کہ انتخابات میں خواتین ووٹرز کی تعداد کم نظر آتی ہے۔

سماجی کارکن ثمینہ آفریدی کا کہنا تھا کہ فاٹا میں ہونے والے جرگوں میں آج تک کسی خاتون نے شرکت نہیں کی، کیونکہ وہاں ایسا نظام ہے جس میں خواتین کو قبائلی فیصلوں میں شامل ہی نہیں کیا جاتا اور اگر خاندانی مسائل پر نظر ڈالی جائے تو انہیں وراثت میں بھی حصہ دار نہیں سمجھا جاتا۔

یہ بھی پڑھیں: فاٹا میں خواتین کی تعلیمی شرح انتہائی کمتر سطح پر

انھوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'بدقسمتی سے ایسی صورتحال کی وجہ سے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی فاٹا سے تعلق رکھنے والی کوئی خاتون موجود نہیں جو اپنی آواز کو اٹھا سکے اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ بہت بدتر حالات ہیں'۔

اس سوال پر کہ کچھ عرصہ قبل سوات میں بھی خواتین کا ایک جرگا بنایا گیا تھا تو کیا آپ نے اسی سے متاثر ہوکر یہ فورم بنانے کا فیصلہ کیا ؟ ثمینہ آفریدی نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ شہید بے نظیر بھٹو فاؤنڈیشن کے تحت ایک جرگے کا انعقاد ہوا تو اس میں 250 مردوں کے درمیان میں واحد خاتون تھی اور جب لوگوں نے خواتین کو شامل کرنے کی بات کی تو وہاں کچھ لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے لگا کہ یہاں خواتین کو منظم کرنے کی بہت ضرورت ہے، لہذا وہ اُس وقت سے ایسے گروپ کو قائم کرنے پر غور کررہی تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 2008 کے بعد سے پیپلز پارٹی کے دور میں بھی بہت سے جرگے تشکیل دیے گئے، لیکن وہ سب کے سب مردوں پر مشتمل تھے اور ان میں خواتین کو شامل کرنے پر صرف غور ہی کیا گیا، مگر عملی طور پر کچھ نہ ہوسکا۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت اس کمیٹی میں فاٹا سے 350 کے قریب خواتین ہیں جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنا چاہتی ہیں تاکہ نئی اصلاحات میں ان کے حقوق کو نظر انداز نہ کیا جائے۔

خیال رہے کہ حال ہی میں وفاقی کابینہ نے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے فاٹا اصلاحات کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کی منظوری دی تھی۔

مجوزہ بل کے تحت سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا دائرہ قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا، جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔

بل کے پارلیمنٹ سے منظور ہونے کے بعد ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا، فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابل تقسیم محاصل سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

واضح رہے کہ حکومت نے رواں سال مارچ میں فاٹا اصلاحات کی سفارشات کی اصولی منظوری دی تھی، جس کے تحت فاٹا کو پانچ سال میں صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کردیا جائے گا، تاہم خیبرپختونخوا حکومت کا مطالبہ ہے کہ حکومت 2018 کے عام انتخابات سے قبل فاٹا میں بلدیاتی انتخابات کروا کر اسے صوبے میں ضم کرے۔

تبصرے (0) بند ہیں