**ملک میں صحافی، یونیورسٹی پروفیسرز اور اسکول ٹیچرز کو کب اور کہاں سے لاپتہ کرلیا جائے جائے کس کو معلوم نہیں اور اس حساس معاملے پر حکومت بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام ’نیوز وائز‘ میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ماہر قانون ریما عمر نے کہا کہ یہ پاکستان کیلئے حساس انسانی حقوق کا المیہ ہے، رواں سال کے شروعات میں 4 سے 5 بلاگرز، صحافی، مصنف، عام شہری اور سرگرم سماجی کارکن گمشدہ ہوئے اور اب پروفیسرز گمشدہ ہو رہے ہیں، جبکہ ہر سال درجنوں گمشدگیوں کی خبریں سامنے آتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے بلوچستان اور فاٹا اس حوالے سے خطرناک تصور کیے جاتے تھے لیکن اب کراچی یہاں تک کہ پورے پاکستان میں اس طرح کے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔

جبری گمشدگیوں کے حوالے سے بین الاقوامی قانون پر روشنی ڈالتے ہوئے ریما عمر نے کہا کہ کسی کو بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کے مطابق حراست میں لیں تو ان کے خاندان کو فوراً اطلاع دینی چاہیے اور وکیل کرنے کی سہولت میسر کرنی چاہیے، مگر یہاں اس کے برعکس ہے اور یہاں جو لوگ بھی جبری گمشدگی کا شکار ہوتے ہیں انہیں یہ سب سہولتیں نہیں ملتیں جو کہ پاکستان اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی قوانین کے تحت کسی کو بھی ججز کے سامنے پیش کرنے اور اپنی دفاع کا حق دیئے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور نہ حراست میں رکھا جاسکتا ہے، ہماری عدالتیں بھی یہی کہتی ہیں کہ چاہے جو بھی وجہ ہو دہشت گردی ہو یا ایجنٹ ہونے کا الزام ہو، آپ ان کے خلاف کارروائی قانون کے دائرے سے باہر جاکر نہیں کر سکتے۔

جبری گشمدگی کے حوالے سے بنائے گئے کمیشن سے متعلق ریما عمر کا کہنا تھا کہ 7 سال سے یہ کمیشن کام کر رہا ہے، اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اس کمیشن کو جو کام دیا گیا ہے وہ کر رہا ہے یا نہیں؟

انہوں نے کہا کہ کمیشن کا صرف یہ کام نہیں ہے کہ وہ کاغذات تیار کرے بلکہ وہ ایف آئی آر درج کرے، سزا دے اور بتائے کہ یہ کون لوگ ہیں، پاکستان میں آج تک کوئی ایک ایسا شخص نہیں جس کو جبری گمشدگی کے لیے کوئی سزا دی گئی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگ جن کے خاندانوں نے کمیشن میں شکایت کی جس پر انہیں بتایا گیا کہ کمیشن کے پاس گمشدہ لوگ نہیں ہیں، مگر کئی سال بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز سے پتہ چلتا ہے کہ ملٹری کورٹ نے ان لوگوں کو ٹرائل کیا اور سزائے موت دے دی، اس طرح کے کیسز بہت زیادہ ہیں۔

ریما عمر کا کہنا تھا کہ ’اب تک ایک ہزار 200 سے زائد کیسز ایسے ہیں جو حل نہیں ہوئے، کمیشن یہ تک پتہ نہ لگا سکا کہ وہ لوگ کہاں ہیں؟ میری نظر میں کمیشن اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کر رہا اسی وجہ سے اقوام متحدہ کے ماتحت ادارے بھی اس کمیشن پر بہت تنقید کر رہے ہیں۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں