اِن اشعار میں ن م راشد نے اپنی آوارگی کا اعتراف کیا ہے:

یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

مگر سرشت کی آوارگی کو کیا کیجے!

اور یہ شعر کہ

ازل سے فطرت آزاد ہی تھی آوارہ

یہ کیوں کہیں کہ ہمیں کوئی رہنما نہ ملا

وہ کسی کو اپنا رہبر، راہنما بنا لیتے تو شاید شاعری کی سیج پر روایت سے انحراف کے پھول نظر نہ آتے۔ چمن زارِ سخن میں انسان دوستی کے خوبصورت اور دل گداز ترانوں کی گونج نہ سنائی دیتی۔ انہیں کوئی راہبر مل جاتا تو نرم اور کھردرے احساسات کو ایسی وسعتِ بیاں کہاں نصیب ہوتی؟ ہمیں جذبات کی دل آویز کھنک کے ساتھ انسانوں کے دُکھوں اور مصائب کا ادراک کیسے ہوتا؟ فرسودہ نظام سے بغاوت کا پیغام کون دیتا؟ شاید کوئی اور شاعر ایسا نہ کرسکے، لیکن راشد نے یہ راستہ چُنا۔ انہوں نے اچھا کیا جو کسی نام نہاد رہنما کے فریب میں نہ آئے اور اپنی اِس آوارگی کو ترک نہ کیا۔

اِس شاعرِ بے مثل کی آوارگی دراصل فکر و دانش اور تخیل کی اڑان تھی جو خود آگاہی کا وسیلہ بنی۔ اِسی آوارگی نے اردو شاعری کو متنوع موضوعات اور لازوال نظموں سے مالا مال کردیا۔ شعروسخن کی دنیا میں ن م راشد کو جدت طراز اور روایت شکن مانا گیا۔ انہوں نے نثر میں بھی اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا اظہار کیا، لیکن آزاد نظم میں ہیئت، تیکنیک کے تجربات میں ممتاز ہوئے اور خود کو جدید نظم کا معمار ثابت کیا۔ اِن کی شاعری تجریدی اور علامتی تجربات سے مزین ہونے کے ساتھ اظہار کے منفرد اور پُراثر انداز کی وجہ سے مقبول ہوئی۔

روایت میں جدیدیت کا رنگ بھرنے والے اس شاعر نے معاشرے اور افراد کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے ہوئے فکر و دانش کے نئے زاویے ہمارے سامنے رکھے۔ زمانے، نظام اور اپنے معاشرے پر طنز کی جرأت کی اور اِس پر شکست خورد، نامُراد اور جنس نگار تک کہا گیا۔ تاہم یہ الزامات بجائے خود فرسودہ اور پست ذہنیت کا نتیجہ تھے۔

راشد نے نئے افکار کے حامل، اِرتقا اور جدت سے ہم آہنگ اور باعمل افراد پر مشتمل معاشرہ تشکیل دینے کی بات کی۔ اِن کا زیادہ تر کلام اُمید افزاء اور مسرت بھرے جذبات سے خالی نظر آتا ہے، لیکن غور کریں تو وہی نظمیں گھٹن اور حبس زدہ ماحول سے نکل کر نئے صبح و شام پیدا کرنے کی اُمید اور ترنگ جگاتی تھیں، جسے اِس دور میں ابہام کی شاعری کہہ کر مسترد کرنے کی کوشش کی گئی۔ راشد کی علامتی شاعری کو اُن کی لفاظی قرار دیا گیا جب کہ راشد تشکیک زدہ معاشرے کو نئے رجحانات اور افکار سے آشنا کرنا چاہتے تھے۔

اِن کی شاعری میں کسی کہانی کی طرح کردار بھی ملتے ہیں۔ اِس کی مثال اندھا کباڑی اور حسنِ کوزہ گر ہیں:

"خواب لے لو... خواب‘‘

صبح ہوتے ہی چوک میں جا کر لگاتا ہوں صدا

خواب اصلی ہیں کہ نقلی...

یوں پرکھتے ہیں کہ جیسے اِن سے بڑھ کر

خواب داں کوئی نہ ہو!

مفت لے لو مفت، یہ سونے کے خواب

مفت سن کر اور ڈر جاتے ہیں لوگ

اور چپکے سے سرک جاتے ہیں لوگ

دیکھنا یہ مفت کہتا ہے

کوئی دھوکا نہ ہو!

ایسا کوئی شعبدہ پنہاں نہ ہو

گھر پہنچ کر ٹوٹ جائیں

یا پگھل جائیں یہ خواب

بھک سے اڑ جائیں کہیں

یا ہم پہ کوئی سحر کر ڈالیں یہ خواب

جی نہیں کس کام کے؟

ایسے کباڑی کے یہ خواب

ایسے نابینا کباڑی کے یہ خواب!

وہ داستان گو تھے۔ کسی کردار کا انتخاب کرکے اُس کی کہانی کو نظم میں نہایت خوبصورتی سے باندھ دیتے تھے۔ ’حسنِ کوزہ گر‘ اِن کی ایک شاہکار نظم ہے۔ اِس کا یہ بند دیکھیے:

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن

تو چاہے تو بن جاؤں میں پھر

وہی کوزہ گر جس کے کوزے

تھے ہر کاخ و کو اور ہرشہر و قریہ کی نازش

تھے جن سے امیر و گدا کے مساکن درخشاں

تمنّا کی وسعت کی کس کو خبر ہے جہاں زاد لیکن

تو چاہے تو میں پھر پلٹ جاؤں اِن اپنے مہجور کوزوں کی جانب

گِل و لا کے سوکھے تغاروں کی جانب

معیشت کے اظہارِ فن کے سہاروں کی جانب

کہ میں اس گل و لا سے، اِس رنگ و روغن

سے پھر وہ شرارے نکالوں کہ جن سے

دلوں کے خرابے ہوں روشن!

یہ نظم ایک ایسے فنکار کا المیہ ہے جو اب کوزہ گری کی فنی صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے اور اِسے اپنے اندر دوبارہ اجالنے کے لیے اپنے محبوب کی ایک نگاہ کا طلبگار ہے۔

کرداروں کے ذریعے تخاطب کے ساتھ وہ "میں" کا صیغہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ اِس کی مثال اِن کی نظم 'رقص'، 'خود کشی' اور 'انتقام' ہیں۔ راشد کی پہلی نظم انسپیکٹر اور مکھیاں تھی۔ وہ طنز و مزاح کے پیرائے میں ایک منظر کا بیان تھا۔ اُس دور کا کوئی انسپیکٹر آف اسکولز جب راشد کے اسکول کا معائنہ کرنے آیا تو وہاں موجود مکھیوں نے اِس طرح اُس کا پیچھا کیا کہ جہاں گیا اُس کے سَر پر بھنبھاتی رہیں۔ راشد کے تخیل نے اِس منظر کو نظم میں سمیٹ لیا۔ نو عمر راشد نے اپنے لیے "گلاب" کا تخلص چُنا تھا۔

ن م راشد کے دادا فارسی اور اردو کے شاعر تھے۔ جب اُن کو اپنے بیٹے کی زبانی معلوم ہوا کہ پوتا شاعری کر رہا ہے تو کہا کہ شاعری کرو گے تو کسی کام کے نہ رہو گے، اِس سے دور رہنا، مگر راشد خود کو باز نہ رکھ سکے۔ عمر کے ساتھ سنجیدگی اور کلام میں پختگی آئی تو "گلابؔ" ترک کردیا، لیکن ایک عرصے تک تخلص طے نہیں کرسکے۔ اِس دوران غیر معروف رسائل میں اُن کا کلام اصل نام سے شائع ہوتا رہا۔

ن م راشد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ انگریزی، فلسفہ، تاریخ اور فارسی بھی پڑھی۔ انگریزی میں متعدد مضامین لکھے جو رسائل اور اخبار کی زینت بنے۔ اِن کی فکر نے مغرب کے نظریات، مشرق کی سوچ اور روایات کا موازنہ کیا تو بہت دوری محسوس کی اور اُنہیں یہاں کے معاشرے پر تشکیک اور تذبذب کے ساتھ غیر منطقی فکر اور غیر سائنسی نقطۂ نظر نے پریشان کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ جوشِ خطابت اور زورِ تقریر نے بے عملی کو بڑھاوا دیا ہے، اور اِس کا توڑ کرنا ضروری ہے۔

راشد کا خاصا وقت شیخوپورہ اور مُلتان میں گزرا۔ یہاں مختلف ادبی اور تعلیمی رسائل کی ادارت بھی انجام دی۔ پھر کمشنر آفس ملتان میں بطور کلرک ملازمت کی۔ اِسی عرصے میں چند ناولوں اور مختلف موضوعات پر کُتب کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ معاش کی ضرورت اور مصروفیت کا مزید سامان اب نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے آل انڈیا ریڈیو پر تقرری سے پورا کرنے لگے تھے۔ ترقی پاتے گئے اور ڈائریکٹر آف پروگرامز کا عہدہ سنبھال لیا۔

راشد نے متحدہ ہندوستان کے برطانوی قانون کے مطابق مختلف امتحانات پاس کرنے کے بعد فوج کے لیے بھی تعلقاتِ عامّہ کے شعبے میں خدمات انجام دیں۔ اِسی حوالے سے بیرونِ ملک بھی تعینات رہنے کا موقع ملا اور وہاں کے فکری رجحانات، نظریات اور ادب کا مطالعہ بھی کیا۔ فوج سے رخصت لے کر دوبارہ ریڈیو لکھنؤ سے منسلک ہوگئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد راشد نے ریڈیو پاکستان پشاور سے تعلق جوڑ لیا۔ اُنہیں ایران میں قیام کا موقع بھی ملا تھا جہاں اُنہوں نے اپنے ادبی ذوق کی تسکین کے ساتھ مطالعے کے بعد اہم شعراء کی درجنوں نظموں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

راشد کے کلام میں فارسی کا رنگ بھی نظر آتا ہے۔ فارسی تراکیب کے استعمال کے ساتھ مختلف داستانیں اور اساطیر کا بیان اُنہیں ایک مشکل، لیکن وسیع النظر شاعر بناتا ہے۔ اِن کی شاعری نرم اور سادہ نہیں بلکہ کھردرے جذبات کی عکاس ہے۔ راشد نوجوانی میں خاکسار تحریک سے بہت متاثر تھے اور اِس سے وابستہ بھی رہے۔ وہ اکثر تقاریب میں خاکسار وردی اور ہاتھ میں بیلچہ اٹھائے شریک نظر آتے تھے۔

20ویں صدی کے اِس اہم شاعر کی فکر اور آہنگ اُس دور کے قاری اور ناقد دونوں کے لیے اجنبی اور نامانوس تھا۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ راشد کی نظمیں نہ صرف اپنے طرزِ احساس میں منفرد تھیں بلکہ اِن کا لب و لہجہ اور تیکنیک بھی غیر روایتی تھی۔ اُس زمانے میں نظم کا سانچہ بہت سیدھا تھا جبکہ راشد نے الگ ہی ڈھب اپنایا جو شاید ناقدین کے لیے چیلنج بن گیا بلکہ اُن کے اندر ایک قسم کا احساسِ کمتری پیدا ہوگیا تھا۔

خالق اور مخلوق، احساسات اور جذبات 19ویں صدی کے ادب کا موضوع رہے ہیں۔ راشد کے ہاں یہی معاملات اور مسائل ایک مختلف ہیئت اور تکینک کے ساتھ پابندِ کلام ہوئے تو اُنہیں قبول کرنے میں تامل کے ساتھ مذہب کے نام نہاد ٹھیکیداروں نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

راشد کا زمانہ فکر و فن کے نئے زاویے تلاش کرنے اور رجحانات کے پنپنے کا دور تھا۔ جنگوں اور اُس کے نتیجے میں انسانوں کی بدحالی کے بعد سرمایہ داری کا عفریت انسان کو نگلنے کے لیے سَر اٹھا رہا تھا۔ بغاوت اور انقلابی امنگوں کے ساتھ ادب میں خدا، اُس کے وجود اور کائنات کے مسائل پر مباحث جنم لے رہے تھے جبکہ انسان پرستی اور انسانوں کے جملہ مسائل کو ادب میں اہمیت دی جانے لگی تھی۔ اِس رجحان کا ن م راشد کی شاعری پر گہرا اثر ہوا۔

نظم مکافات کا یہ بند ایک اضطراب، افسوس اور زندگی کی کشمکش کو بیان کر رہا ہے:

رہی ہے حضرت یزداں سے دوستی میری

رہا ہے زہد سے یارانہ استوار مرا

گزر گئی ہے تقدس میں زندگی میری

دل اہرمن سے رہا ہے ستیزہ کار مرا

کسی پہ روح نمایاں نہ ہوسکی میری

رہا ہے اپنی امنگوں پہ اختیار مرا

دبائے رکھا ہے سینے میں اپنی آہوں کو

وہیں دیا ہے شب و روز پیچ و تاب انہیں

زبان شوق بنایا نہیں نگاہوں کو

کیا نہیں کبھی وحشت میں بے نقاب انہیں

خیال ہی میں کیا پرورش گناہوں کی

کبھی کیا نہ جوانی سے بہریاب انہیں

یہ مل رہی ہے مرے ضبط کی سزا مجھ کو

کہ ایک زہر سے لبریز ہے شباب مرا

اذیتوں سے بھری ہے ہر ایک بیداری

مہیب و روح ستاں ہے ہر ایک خواب مرا

الجھ رہی ہیں نوائیں مرے سرودوں کی

فشار ضبط سے بے تاب ہے رباب مرا

مگر یہ ضبط مرے قہقہوں کا دشمن تھا

پیام مرگ جوانی تھا اجتناب مرا

راشد کی نظمیں، انسانی نفسیات پر اُن کی گہری نظر اور مشاہدے کی مثال آپ ہیں۔ تیل کی کمپنیوں کا قومی تحویل میں جانا، جمہوریت کی بساط لپیٹے جانا، حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی سازشیں، نسل پرستی کو فروغ دینا، سرمایہ داری کا عفریت، عرب دنیا کی بدحالی اور بے بسی جیسے معاملات کا اثر ن م راشد کی شاعری پر بھی پڑا۔

راشد کے شعری مجموعے 'ماورا'، 'ایران میں اجنبی'، اور 'لا=انسان' تو اُن کی زندگی میں شائع ہوگئے تھے، لیکن ایک کتاب گمان کا ممکن اُن کے انتقال کے بعد منظرِ عام پر آئی۔ اِس عہد ساز شاعر نے نو اکتوبر 1975 کو اِس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت لی۔ وہ زرخیز ذہن کے مالک اور بلند فکر انسان تھے جو گلشنِ شعر و ادب کی تزئین و آرائش میں اپنے شب و روز گھٹاتا چلا گیا اور نسلِ نو کے لیے اپنے کلام کی شکل میں ایک خزانہ چھوڑ گیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں