پاکستان مسلم لیگ ن کے صدراور سابق وزیراعظم نواز شریف نے انتخابی اصلاحات بل 2017میں ختم نبوت کے حوالے سے کاغذات نامزدگی میں ہونے والی ردوبدل کے ذمہ داروں کے تعین کے لیے تین رکنی کمٹی تشکیل دے دی۔

مسلم لیگ(ن) کے ترجمان ڈاکٹر آصف کرمانی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق نواز شریف نے مسلم لیگ ن کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے جو 24گھنٹوں میں تحقیقات کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

تین رکنی ٹیم کمیٹی میں راجہ ظفرالحق کے علاوہ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال اور وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان شامل ہوں گے۔

راجا ظفرالحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی 24 گھنٹوں میں ذمہ داروں کا تعین کر کے اپنی رپورٹ پارٹی صدر کو پیش کرے گی، تاہم انہوں نے ڈان کو بتایا کہ یہاں پر 24 گھنٹوں کا مطلب ’24 ورکنگ آورز‘ ہیں (جو کہ تین دن کے برابر ہیں)۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی نے دو روز قبل ہی انتخابی اصلاحاتی بل 2017 کی وجہ سے حلف نامے میں ختمِ نبوت کے حوالے سے رونما ہونے والی تبدیلی کو اپنی پرانی شکل میں واپس لانے کے لیے ترمیمی بل منظور کرلیا ہے۔

مزید پڑھیں:ختم نبوت حلف نامے کی بحالی کیلئے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم منظور

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کا ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا، جسے اتفاق رائے سے منظور کیا جاچکا ہے۔

اجلاس کے دوران خطاب کرتے ہوئے وزیر قانون زاہد حامد کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات بل حکومت کی تین سالہ محنت کا نتیجہ تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس بل کا تعلق صرف حکومت سے نہیں تھا بلکہ یہ ایک متفقہ بل تھا جس کے لیے تمام پارلیمانی جماعتوں کے نمائندگان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی تھی۔

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ جب انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 پیش کیا گیا تھا تو یہ تصور بھی نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے ختمِ نبوت حلف نامے میں ترمیم ہو سکتی ہے تاہم اس غلطی کو اب درست کر لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ختم نبوت حلف نامے میں تبدیلی کی تحقیقات کا مطالبہ

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کی وجہ سے جنرل الیکشن آرڈر 2002 میں احمدی عقائد کے حوالے سے شامل کی جانے والی شقیں ’سیون بی‘ اور ’سیون سی‘ بھی خارج ہوگئیں تھیں جو کہ اب ترمیمی بل کی وجہ سے واپس اپنی پرانی حیثیت میں بحال ہوجائیں گی۔

مذکورہ شقوں کے مطابق انتخابی عمل میں حصہ لینے پر بھی احمدی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کی حیثیت ویسی ہی رہے گی جیسا کہ آئین پاکستان میں واضح کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ پارلیمانی لیڈروں کی جانب سے ختمِ نبوت حلف نامے پر آنے والی تبدیلی کو اپنی پرانی حیثیت پر فوری بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی اسے بطور غلطی تسلیم کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں