اسلام آباد: وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کے حوالے سے متوقع اصطلاحات کے حق میں قبائلیوں کی جانب سے پارلیمنٹ کے قریب کیا جانے والا احتجاجی دھرنا گزشتہ رات کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔

مظاہرین فاٹا کے ارکان اسمبلی کی جانب سے ان کو پہنچائی گئی حکومتی ’غیر اطمینان‘ بخش یقین دہانی کے باوجود منشتر ہوگئے۔

واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی 2014 کو پارلیمنٹ کے سامنے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی کیمپ لگایا تھا۔

گذشتہ روز فاٹا اصلاحات کے حق میں احتجاج کرنے والے مظاہرین اسلام آباد کے ڈی چوک پر جمع ہونا شروع ہوئے۔

یہ پڑھیں : فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کیلئے سفارشات

احتجاجی مظاہرین کی جانب سے سیکورٹی زون کے خلاف ورزی دیکھنے میں نہیں آئی اور وہ جناح ایونیو کے پیریڈ گراؤنڈ تک ہی محدود رہے تاہم اس دوران صوبہ خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے تمام سیاسی رہنماؤں نے فاٹا اصلاحات کے حق میں پرجوش تقایر کیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پیر کی صبح فاٹا مظاہرین کے وفد سے بھی ملاقات کی تھی جس میں وزیراعظم پر ایف سی آر کے خاتمے، پاکستان کے قوانین کے اطلاق سمیت پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھانے پر زور دیا گیا تھا۔

وفد کی نمائندگی خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما امیر مقام نے کی۔

ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ فاٹا مظاہرین کے وفد نے وزیراعظم سے مذاکرات کو تسلی بخش قرار دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں : ’2018 سے قبل فاٹا کا خیبر پختونخوا سے انضمام

اعلامیے میں کہا گیا کہ وفد میں فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ شاہ جی گل آفریدی، شہاب الدین خان، محمد ناصر، ساجد طوری اور سجاد طوری شامل تھے۔

تاہم فاٹا کے سیکڑوں نوجوانوں اور ٹریڈ یونینز کے رہنماؤں نے حکومت کی جانب سے مذکورہ مذاکرات کو ایک اور تاخیری حربہ قرار دیا۔

مظاہرے میں شریک فاٹا کے سماجی رکن نظام الدین کا کہنا تھا کہ فاٹا اصطلاحات پر عمل درآمد تک اپنی مدد آپ کے تحت دھرنا جاری رہے گا۔

نظام الدین نے ڈان کو بتایا کہ جب امیر مقام نے وزیراعظم سے ملاقات کا حوالہ پیش کیا تو ان کی تقریر کے بعد دھرنے کے متعدد شرکاء واپس چلے گئے تھے جس کے بعد ڈی چوک پر مظاہرین کی تعداد نصف رہ گئی۔

ادھر سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ فاٹا دھرنے کی گونج بھی جاری ہے، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر فاٹا اصلاحات کے حوالے سے تفصیلات پیش کی گئی ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ اصلاحات کو فاٹا اصلاحات کمیٹی اور وفاقی کابینہ نے رواں سال کے آغاز میں حتمی شکل دی تھی جس پر عمل درآمد میں تاخیر کی جارہی ہے۔

مزید پڑھیں : فاٹا اصلاحات کا نظام فراڈ ہے: سابق چیف جسٹس

بعد ازاں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کے رہنماؤں نے ڈی چوک پر احتجاجی دھرنے میں شرکت کرکے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیا۔

اس موقع پر اے این پی کے صدر اسفندیار ولی کا کہنا تھا کہ فاٹا کا خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا فیصلہ فاٹا کے عوام کا دیرینہ مطالبہ ہے جس کا احترام کرتے ہوئے ایف سی آر کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔

جمعیت علماء اسلام (س) کے رہنما مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے بعض اشخاص فاٹا کو پاکستان کا حصہ تصور نہیں کرتے۔

تبصرے (0) بند ہیں