مودی جی، آئیے مل کر بھارت کا اِتھاس شُدھ کرتے ہیں

28 اکتوبر 2017
بی جے پی والوں سے بِنتی ہے کہ وہ ہندو، ہندی اور ہندوستان جیسے نام ’لٹیروں‘ کی دین قرار دے کر اِن کا استعمال ترک کردیں۔—فوٹو: یوری تارانک / شٹراسٹاک
بی جے پی والوں سے بِنتی ہے کہ وہ ہندو، ہندی اور ہندوستان جیسے نام ’لٹیروں‘ کی دین قرار دے کر اِن کا استعمال ترک کردیں۔—فوٹو: یوری تارانک / شٹراسٹاک

سیکولر بھارت پر راج کرتی مذہبی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تاریخ پر برہم ہے اور اُس کے نیتا اپنی نیت کی پوری خرابی کے ساتھ اتہاس بدل دینے پر تُلے ہیں۔

کوئی مغلوں کے پیچھے لَٹھ لے کر پڑ گیا ہے تو کوئی تاج محل کے پیچھے پھاؤڑا لے کر، اور ایک صاحب کو ٹیپو سلطان پر تاؤ آگیا ہے اور اُسے قاتل اور ظالم حکمران کا خطاب دے دیا ہے۔

مغلوں کو لُٹیرا ہونے کا اعزاز ملا، چنانچہ تاج محل لٹیروں کی نشانی قرار پایا ہے۔ اب تک ہم سمجھتے تھے کہ تاج محل صرف ساحر لُدھیانوی ہی کی ملامت کا نشانہ بنا ہے، کیونکہ اُن کا کہنا تھا کہ یہ مقبرہ بناکر ایک شہنشاہ نے دراصل غریبوں کی میل ملاپ کے لیے 'جگہ' تلاش کرتی مُفلس محبت کا مذاق اُڑایا ہے، ساتھ ہی انہوں نے ملاقات کے لیے تاج محل کا انتخاب کرنے والی اپنی محبوبہ کو ہدایت دی تھی کہ، 'میری محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے۔' ساحر کی یہ نظم بتاتی ہے کہ محبت کی ملاقاتوں کے لیے مقبروں کا رُخ کرنے کی ریت مزار قائد سے بہت پُرانی ہے۔

ویسے ہمیں ہمیشہ شک رہا ہے کہ شاہ جہاں کے ارادے پر شبہہ کرنے والے اِس شاعر کی اپنی نیت ٹھیک نہیں، بہرحال شاعر کی نیت کچھ بھی ہو بعض لوگوں کو لگتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا تاج محل سے بیر مودی جی کی آبائی ریاست گجرات میں قریب آتے چناؤ جیتنے کا ایک داؤ ہے۔

بھئی کچھ بھی ہو اگر بھارتی حکمران 'اتہاس سُدھار' (تاریخ کی درستگی) چاہتے ہیں تو ہمیں کیا۔ بات صاف یہ ہے کہ تاج محل کی عمارت اور ٹیپو سلطان کا نام مِٹا کر بگڑی ہوئی تاریخ کی درستی کا سلسلہ شروع ہو تو پھر مسلم دورِ حکومت کی ہر یادگار کو زمیں بوس اور مسلمان شخصیات کا تذکرہ لاپتہ کرکے ”شُدھ“ (خالص) بھارت کی بنیاد رکھ دی جائے۔

اب شدھ کا مطلب ہے خالص، یعنی ہر ملاوٹ سے پاک صاف، اور بطور 'پاکستانی' ہمیں ہر قسم کی پاکیزگی عزیز ہے لہٰذا ہم نے سوچا کہ اِس صفائی مہم میں بی جے پی کا کیوں نہ ہم بھی ساتھ دیں۔ اُجڑتی معاشیات کو سدھارنے میں ناکام رہنے والے اگر اب ستیاناس ہوجانے والے اِتہاس کو ٹھیک کر رہے ہیں تو اِس نیک کام میں اچھے ہم سائے کی طرح ہمیں بھی اِن کا ہاتھ بٹانا چاہیے ناں۔

تو بھیا! یوں کیجیے کہ تاریخ کی مرمت کا سلسلہ مسلمانوں کے دورِ حکومت تک محدود نہ رکھیے، بلکہ اِسے اور پیچھے لے جائیے، تاکہ اتہاس جَڑ سے ٹھیک ہوسکے اور وہ داغ دھبے جو صدیوں کی برساتوں کے بعد بھی نہیں دُھل سکے ایسے دُھلیں کہ خنجر پہ کوئی چھینٹ نہ دامن پہ کوئی داغ۔

کہانی کا آغاز یہاں سے کیا جائے کہ بھارت ورش میں بسنے والے دراوڑ قدکاٹھ کے چھوٹے چھوٹے اور ناتواں تھے، کمزور ہونے کے باعث محنت مشقت نہیں کر پاتے تھے، ہر وقت اِس فکر میں مُبتلا رہتے تھے کہ اتنے بڑے دیش کی دیکھ ریکھ کیسے ہو، انتظام کون چلائے؟ دیوتا سمان آریاؤں کو جب بھارت واسیوں کے اِس دُکھ کی خبر ملی تو وہ اِن دُکھیاروں کے غم میں نڈھال ہوگئے، بے چین ہوگئے، بے تاب ہوگئے، بس پھر کیا تھا، سب چھوڑ چھاڑ کر آریاؤں کی ٹولیاں 'میں کیول تمہارے لیے آرہی ہوں' گاتی طویل سفر کی مشکلیں جھیلتی بھارت میں داخل ہونے لگیں۔

بھارت کی دھرتی پر پیر دھرتے ہی مہربان آریاؤں نے دراوڑوں کو گلے سے لگا لیا، اُنہیں پیار کیا ایک پپی اِدھر، ایک پپی اُدھر اور گانے لگے 'کس کا ہے تم کو انتظار میں ہوں ناں۔'

دراوڑوں نے جواباً گایا 'تمہی ہو ماتا، پِتا تمہی ہو۔' یہ سُن کر آریاؤں میں ممتا جاگ اُٹھی، دراوڑوں کے سروں پر ہاتھ پھیر کر کہا، میرے پپو، میرے مُنے، میرے لال، اِس دھرتی کو اپنے پسینے سے سینچتے سینچتے تمہارا حال بُرا ہوگیا ہے، اب تمہارا سارا کام ہم کریں گے، بس تم ہمارے چھوٹے موٹے کام کردیا کرنا، جیسے گندگی صاف کرنا، جاؤ اب جا کر کھیلو۔

دراوڑ خوشی سے جھوم اُٹھے اور ساری ذمے داری آریاؤں کو دے کر چین کی بانسری بجانے لگے۔ اِن میں سے بے شمار آرام کرنے کے لیے بہت دور دکن کی طرف چلے گئے۔ پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔ لو بھئی، اتہاس کا پہلا پَنّا تو صاف ہوا۔ اب ایک کام کیجیے، اِس ستھرے اور بے داغ پَنّے کو ’فَٹ دھنی سے‘ نصاب کی کتابوں میں شامل کردیجیے۔

اب آتا ہے 'لُٹیروں' کا دور، جو مُوا خود تو عربوں سے آغاز کرکے مغلوں پر ختم ہوجاتا ہے لیکن زمین سے زبان تک اتنی نشانیاں اور یادگاریں چھوڑ جاتا ہے کہ قدم قدم پر یہ تاریخ منہ چڑاتی ہے، دل دُکھاتی ہے، جاں جلاتی ہے۔

اِس نگوڑی لُٹیری تاریخ سے جان چھڑانے کے لیے ہی شدھ ہندی کی مہم چلی اور سادہ زبان پر چڑھے اور کومل لیکن ملیچھ اردو الفاظ کو ٹھکانے لگا کر اِن کی جگہ سنسکرت کے شبد شامل کرتے ہوئے اور ایک ایسی بھاشا وجود میں لائی گئی، جسے سمجھنا عام بھارتی کے لیے ’چنوتی‘ (امتحان) بن گیا، بقول خود پنڈت جواہر لال نہرو، جب اُن کی تقریر سرکاری ریڈیو سے نشر ہوئی، ’تو وہ خود بھی نہیں سمجھ سکے کہ انہوں نے کیا کہا ہے۔‘

اگرچہ بولی وڈ کی فلموں اور عام بھارتیوں کے جملوں سے یہ بھاشا دور ہی رہی لیکن تاریخ کی تشکیل نو کرنے والوں نے تو زبان سے لٹیروں کی تاریخ کے خاتمے کا کام پوری ایمان داری سے کیا۔ آشا ہے کہ بھاشا کی طرح دھرتی سے بھی تاریخ مٹا ڈالنے کی تاریخ جلد لکھ ڈالی جائے گی اور تاج محل، لال قلعہ، قطب مینار اور چار مینار سمیت ’لُٹیروں‘ کی ساری یادگاریں ملبہ کرکے گنگا میں بہادی جائیں گی۔

ہم بی جے پی والوں سے بِنتی کرتے ہیں کہ وہ ہندو، ہندی اور ہندوستان جیسے نام لٹیروں کی دین قرار دے کر اِن کے استعمال پر پابندی لگادیں کہ لفظ ’ہند‘ عربوں نے دیا، جس سے ’ہندو‘ اور ’ہندوستان‘ نے جنم لیا۔ یوں تاریخ کی صفائی کا سفر انجام کو پہنچے گا اور ایک دُھلی دُھلائی، سُدھری اور صاف ستھری بھارتی تاریخ سامنے آئے گی، وہ اتہاس جو ہندوتوا کا داس ہوگا اور اُسے راس ہوگا۔

تبصرے (3) بند ہیں

Hafez Oct 29, 2017 01:09am
بہت خوب۔
عمران Oct 29, 2017 03:41am
بہت اعلی! مگر اب کیا کریں کہ ایک چائے والا اور کیا کیا کرے۔۔اس سے زیادہ سوچ بھی نہیں سکتا۔
یمین الاسلام زبیری Oct 29, 2017 04:25am
بہت عمدہ، اچھی حس مزاح ہے عثمان صاحب کی۔ میں تو یہ کہوں گا کہ بھارت کو چاہیے کہ تاج محل کو پاکساتان بھیج دے، ایک رفیوجی اور سہی۔ دوسرے یہ کہ تاج محل کا آنا اگر مشکل ہے تو آگرہ کو پاکستان میں، اورر ان تمام جگہوں کو پاکستان میں شامل کردیا جائے جہاں مسلمانوں کی تعمیرات ہیں۔ اس طرح بھارت پاک پوتر ہو جائے گا، اور مسلمانوں کو ان کی چیزیں بھی مل جائیں گی۔