سندھ کی کابینہ نے انسپکٹرجنرل پولیس (آئی جی پی) اللہ ڈنو(اے ڈی) خواجہ کی خدمات وفاق کو واپس کرتےہوئے سپریم کورٹ کے احکامات کےمطابق سردار عبدالمجید دستی کو صوبے کا نیا آئی جی بنانے کی سفارش کردی۔

صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کا کہنا تھا کہ 'اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی سفارشات وفاق کو بھیج دی جائیں گی، اے ڈی خواجہ اوپی ایس افسرہیں جبکہ ہمیں آئی جی سندھ کے لیے گریڈ 22 کےافسرکی ضرورت ہے'۔

سہیل انور سیال کا کہنا تھا کہ اے ڈی خواجہ بھی وہی افسران تعینات کررہے ہیں جو ہم نے کیے تھے۔

سیکریٹری داخلہ نے کابینہ کو بریفنگ دیتے ہوئے تجویز دی کہ اے ڈی خواجہ 21 گریڈ کے او پی ایس افسر ہیں جنھیں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 22 گریڈ کے افسر سردار عبدالمجید دستی سے تبدیل کردینا چاہیے۔

سندھ کابینہ کا اجلاس پولیس میں اصلاحات کے موضوع پر ہوا۔

اے ڈی خواجہ کا کابینہ کی سفارشات پر کہنا تھا کہ انھیں سندھ حکومت کی تجویز پر آئی جی تعینات کیا گیا تھا اور اس وقت بھی او پی ایس افسران کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ موجود تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2005 سے اب تک 17 افسران کو آئی جی بنایا گیا جن میں سے 14 افسران 21 گریڈ کے تھے جبکہ اس وقت سوائے پنجاب کے تمام صوبوں کے آئی جی بھی 21 گریڈ کے افسران ہیں، پنجاب کے آئی جی کو حال ہی میں ترقی دی گئی ہے۔

قبل ازیں کابینہ اجلاس میں بریفنگ کے دوران آئی جی نے پولیس کی بہتری کے لیے تجاویز پیش کیں۔

اے ڈی خواجہ نے تجویز دی کہ ایڈیشنل آئی جی، ذونل ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) اور سینیئرسپرینٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کو دو سال کی مدت کے لیے تعینات کردینا چاہیے جبکہ دیگر افسران کو ایک سال کے لیے تعینات کردینا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ پولیس افسران کو بغیر کسی ضرورت کے مدت سے پہلے نہیں ہٹانا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی تعیناتی کے لیے صرف اسی افسر کو چنا جائے جس کی ادارے میں کم ازکم سات سال کی خدمات ہوں اور تعیناتی کے وقت ان کی عمر 55 سال سےزائد نہ ہو۔

آئی جی سندھ نے پولیس افسران کی تعیناتی اور تبادلوں کے حوالے سے تجویز دی کہ اس حوالے سے فیصلے آئی جی کےجانچ بورڈ کی تجاویز کے تحت کیے جائیں۔

سیکریٹری داخلہ نے اے ڈی خواجہ کی تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ پولیس رولز 1934 کےبرخلاف ہے۔

وزیراعلیٰ کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی نمائندگی کرتےہوئے سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ تعیناتی اور تبادلوں کا اختیارات پولیس سربراہ کے بجائے صوبائی حکومت کے پاس ہونے چاہیے۔

خیال رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ ماہ اپنے فیصلے میں واضح کیا تھا کہ آئی جی کو معقول وجہ کے بغیر ہٹایا نہیں جاسکتا جبکہ تبادلوں اور تعیناتیوں کے اختیارات بھی واپس کردیے تھے۔

مزید پڑھیں:آئی جی سندھ کو عہدے پر برقرار رکھنے کا حکم

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے رواں برس 30 مئی کو اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانے کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے آئی جی سندھ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا اور حکم دیا تھا کہ صوبائی حکومت بغیر کسی جواز کے آئی جی سندھ کو عہدے سے نہیں ہٹا سکتی۔

سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو پابند کیا تھا کہ آئی جی کو ہٹانے کے لیے انیتا تراب کیس میں دیے گئے نکات پر عمل کیا جائے، جس کے تحت 3 سال سے پہلے آئی جی سندھ کو ان کے عہدے سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔

اپنے فیصلے میں عدالت عالیہ کا مزید کہنا تھا کہ پولیس افسران کی تعیناتی کا مکمل اختیار بھی آئی جی سندھ کے پاس رہے گا۔

اے ڈی خواجہ کا سندھ حکومت سے جھگڑا

خیال رہے کہ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد گذشتہ برس مارچ میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔

تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث اے ڈی خواجہ سندھ کی حکمراں جماعت کی حمایت کھوتے گئے۔

محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی 'جبری رخصت' پر حکم امتناع

اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے سندھ حکومت کے اُن ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔

جس کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں صوبائی حکومت نے اے ڈی خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ہٹانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کے خلاف ہے۔

مزید پڑھیں:اے ڈی خواجہ کی معطلی کے خلاف درخواست 'سازش': سندھ حکومت

تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئی جی سندھ 15 دن کی چھٹی پر گئے تھے اور انھوں نے خود اس کی درخواست دی تھی۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد رواں سال جنوری میں اے ڈی خواجہ نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں