کراچی: سندھ حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس کی معطلی کے خلاف دائر کی گئی درخواست آئی جی اللہ ڈنو خواجہ اور وفاقی حکومت کی 'سازش' تھی، تاکہ 'صوبائی حکومت کو برا دکھایا جاسکے'۔

جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژنل بینچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو سندھ حکومت کی جانب سے پیش ہوئے اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ پٹیشن قابل سماعت نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے معاملات سندھ ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'سوال یہ ہے کہ ہائیکورٹ صوبائی اسمبلی کو کسی خاص معاملے میں قانون سازی کے حوالے سے ہدایت دے سکتی ہے یا نہیں؟ سپریم کورٹ اس سوال کا جواب نفی میں دے چکی ہے'.

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ وہ آئی جی سندھ کے ٹرانسفر سے متعلق اپنا حکم امتناع ختم کرے اور ساتھ ہی صوبائی پولیس چیف کو عہدے سے ہٹانے کے خلاف دائر درخواست خارج کردی جائے۔

ضمیر گھمرو کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹانے سے متعلق حکم امتناع کو برقرار رکھتے ہوئے کیس کی سماعت کل بروز جمعرات (24 مئی) تک کے لیے ملتوی کردی۔

مزید پڑھیں:آئی جی سندھ نے رضاکارانہ عہدہ چھوڑنے کی پیشکش کردی

یاد رہے کہ مذکورہ کیس کی 17 مئی کو ہونے والی سماعت کے دوران سماعت کے دوران اے ڈی خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ شہاب اوستو کے توسط سے ایک درخواست جمع کروائی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئی جی سندھ کو ان کا عہدہ چھوڑنے کی اجازت دی جائے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے حکم نامے کے بعد ان کے لیے روزانہ کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانا مشکل ہوچکا ہے، لہذا اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاقی حکومت کے حوالے کردی جائیں۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے سے ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے حکم امتناع برقرار رکھا تھا۔

یاد رہے کہ یکم اپریل کو سندھ حکومت نے آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کے لیے اسلام آباد کو خط لکھا تھا، جس میں عہدے کے لیے سردار عبدالمجید دستی، خادم حسین بھٹی اور غلام قادر تھیبو کے ناموں کی تجویز دی گئی تھی۔

اس خط کے بھیجے جانے کے اگلے ہی روز حکومت سندھ نے اے ڈی خواجہ کی خدمات وفاق کے حوالے کرتے ہوئے 21 گریڈ کے آفیسر سردار عبدالمجید کو قائم مقام آئی جی سندھ مقرر کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا فیصلہ

بعدازاں پاکستان ادارہ برائے مزدور، تعلیم و تحقیق (پی آئی ایل ای آر) کے سربراہ کرامت علی نے حکومت سندھ کی جانب سے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، جس پر سماعت کرتے ہوئے عدالت عالیہ نے آئی جی سندھ کی معطلی سے متعلق سندھ حکومت کا نوٹیفکیشن معطل کردیا تھا۔

اے ڈی خواجہ کا سندھ حکومت سے جھگڑا

خیال رہے کہ اے ڈی خواجہ کو سندھ حکومت کی جانب سے غلام حیدر جمالی کی برطرفی کے بعد گذشتہ برس مارچ میں آئی جی سندھ کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔

تاہم مخصوص مطالبات کو ماننے سے انکار کے باعث اے ڈی خواجہ سندھ کی حکمراں جماعت کی حمایت کھوتے گئے۔

محکمہ پولیس میں نئی بھرتیوں کا اعلان کیا گیا تو اے ڈی خواجہ نے میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں فوج کی کور فائیو اور سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے نمائندے بھی شامل تھے۔

اے ڈی خواجہ کے اس اقدام نے سندھ جماعت کے اُن ارکان کو ناراض کردیا جو ان بھرتیوں میں اپنا حصہ چاہتے تھے تاکہ آئندہ عام انتخابات سے قبل ووٹرز کو خوش کرسکیں۔

یہ بھی پڑھیں: آئی جی سندھ کی 'جبری رخصت' پر حکم امتناع

جس کے بعد گذشتہ سال دسمبر میں صوبائی حکومت نے اے ڈی خواجہ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اے ڈی خواجہ کو ہٹانا چاہتی ہے، لیکن وفاقی حکومت اس کے خلاف ہے۔

تاہم وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا اس معاملے پر کہنا تھا کہ آئی جی سندھ 15 دن کی چھٹی پر گئے تھے اور انھوں نے خود اس کی درخواست دی تھی۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع جاری کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو اے ڈی خواجہ کو رخصت پر بھیجنے سے روک دیا تھا، جس کے بعد رواں سال جنوری میں اے ڈی خواجہ نے اپنی ذمہ داریاں دوبارہ سنبھال لی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں