• KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 23°C
  • LHR: Partly Cloudy 16.2°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.1°C

سینیٹ، ’قائداعظم کےنصب العین‘ کواصل شکل میں بحال کرنے کی خواہشمند

شائع November 4, 2017

اسلام آباد: بانی پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے قومی ترقی کے فرمان ’اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم‘ پر سینیٹ میں بحث کی گئی جس میں ارکانِ پارلیمنٹ کی جانب سے انہیں اصل شکل میں دوبارہ بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔

واضح رہے کہ قاعددِ اعظم کے بیان کردہ نصب العین میں تبدیلی اور اس کی اصل شکل میں ردوبدل کا معاملہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل ن) کے سینیٹر پرویز رشید نے اٹھایا۔

ان کا کہنا تھا کہ قائدِاعظم نے جو نصب العین ہمیں دیا وہ ’اتحاد، یقینِ محکم اور تنظیم‘ تھا جس میں اتحاد کو یقینِ محکم کے بعد کے جبکہ یقینِ محکم کے معنوں کو ایمان سے تبدیل کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: سرخ کتاب سے قائد اعظم کی جعلی ڈائری تک

سینیٹ اجلاس کے دوران ایوانِ بالا کے چیئرمین رضا ربانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے بھی قائدِاعظم کے فرمان کو وفاقی دارالحکومت میں ایئرپورٹ جاتے ہوئے غلط ترتیب میں لکھا دیکھا ہے اور انہوں نے تین مرتبہ اس کو تبدیل کروانے کے لیے کوششیں بھی کیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔

اسکولوں میں نفرت انگیز مواد سے پڑنے والے اثرات اور مذہبی، تعلیمی اور سیکیورٹی اداروں کے کردار پر بات کرتے ہوئے سینیٹر پرویز رشید نے بتایا کہ ملک میں ایک مؤثر نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں ریاست کے بتائے گئے مقاصد ہی شمار کیے جائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ علم دینے والوں نے پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے بجائے جنگ کا میدان بنادیا ہے، جس کی وجہ سے اب ریاست کا بیانیہ تبدیل ہوتا جارہا ہے تاہم پارلیمنٹ کی یہ ذمہ داری ہے کے اب ریاست کا نیا بیانیہ جاری کیا جائے۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی سینیٹر خوش بخت شجاعت کا کہنا تھا کہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: گرتا معیارِ تعلیم: کیا کسی کو فکر ہے؟

انہوں نے نوجوانوں کی تباہی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’تعلیمی اداروں میں شرمناک سرگرمیاں جاری ہیں جس سے ملک کے لیے تباہ کن صورتحال پیدا ہوسکتی ہے‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہمیں ملک میں ایک شعوری ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاہم ہم آزادی اظہارِ رائے اور عدم برداشت کے ذریعے ہی انتہا پسندی کو شکست دے سکیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تاریخ میں ہیر پھیر کی وجہ سے ہمارے ملک میں شعور کا بنیادی ڈھانچا تبدیل کردیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

انہوں نے سینیٹ کو بتایا کہ ایک فوجی آمر نے آئین سے آزادانہ طور پر اقلیتوں کے مذہبی تحفظ کے حوالے سے لفظ ’آزادی‘ کو تبدیل کردیا تھا جبکہ قائدِاعظم محمد علی جناح کی ڈائری میں بھی جعل سازی کی گئی تاکہ لوگوں کو یہ بتایا جا سکے کے قائدِ اعظم پاکستان میں پارلیمانی نظام نہیں بلکہ صدارتی نظام کا نفاذ چاہتے تھے۔

سینیٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ تاریخ میں ہمارے بچوں کو یہ پڑھایا جاتا ہے کہ سندھ کی تاریخ محمد بن قاسم کی آمد سے شروع ہوتی ہے اور سلطان محمود غزنوی کو عظیم غازی تصور کیا جاتا ہے جس نے مذہبی بنیادوں پر کئی مندروں کو توڑا تھا۔

انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پڑھے لکھے افراد مشعال خان، نورین لغاری، خواجہ اظہار الحسن اور سانحہ صفورا گوٹھ جیسے حملوں میں ملوث ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مشعال خان کے قتل پر حیرانی کیوں ہو؟

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب مسلح تنازع کو مذہب کے نام پر پیش کیا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ بھی مذہب کے نام تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے‘۔

سینیٹ اجلاس کے دوران میں تعلیمی اداروں میں میرٹ کے بجائے طاقت اور پیسے کی بنیاد پر داخلہ جیسے امتیازی سلوک کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔

اجلاس کے دوران چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ریاست کے ستونوں کو صحیح سمت میں رہتے ہوئے آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

مزید پڑھیں: ریاست اور معاشرے کا کردار

انہوں نے کہا کہ سینیٹرز نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا جبکہ دوسرے ادارے احتساب سے بچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔

چیئرمین سینیٹ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ نے پہل کردی ہے اب احتساب کا عمل ہر ادارے تک پہنچ کر رہے گا۔

پاکستان مسلم لیگ فنکشنل (پی ایم ایل ایف) کے مظفر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ اپنی طاقت کے استعمال میں ناکام ہو چکی ہے اور ہمیں اس کا الزام دوسرے اداروں پر نہیں ڈالنا چاہیے۔


یہ خبر 04 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025